شمالی برطانیہ میں واقع مانچسٹر وہ شہر ہے جہاں انیسویں صدی میں ایک بڑا صنعتی انقلاب برپا ہواتھا جس سے خطے میں ترقی وارتقاء کا عمل شروع ہوا۔ اس کے بعدسے یہ شہر مختلف ملکوں کے لوگوں کی تہذیب وتمدن کی آماجگاہ بنا۔ یہاں کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ تارکین وطن کی آبادی پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی کل آ بادی کا 10 فیصد سے زیادہ حصہ مانچسٹر میں رہائش پذیر ہے- اس شہر کو پاکستان کے صنعتی شہر فیصل آباد کے ساتھ جوڑا جاتا ہے- دیگر تارکین وطن میں بنگلادیشی ،ہندوستانی،نیپالی اورعرب ممالک کے لوگ شامل ہیں-
ساوتھ ایشین ملکوں کا ثقا فتی ورثہ صحیح معنوں میں ایک ایسا گلدستہ ہے جس کا ہر پھول منفرد اور اچھوتااور اس کی خوشبولاجواب ہے۔
پلٹ فیلڈ پارک میں بی بی سی کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس میلےکا اہتمام مانچسٹر میگا میلہ مینجمینٹ کمیٹی کی جانب سے کیا گیا۔ اس کا آغاز 1989 میں ہوا تھا اور اب تک ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس دو روزہ میلے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی- وی او اے سے انتظامیہ کے ایک رکن نصراللہ مغل نے بات چیت کرتے ہوئےبتایا کہ' اس سال بارش کی وجہ سے پہلے دن لوگوں کی تعداد کم رہی ۔،اس بڑے میلے کی کامیابی پانچوں ممالک کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے۔
ثقافتی میلہ یعنی موسیقی ،رقص،کھانےاور روایتی فن دستگاری سے سجے مانچسٹر میلے میں بنالاقوامی گلوکاروں کے علاوہ مقامی فن کاروں نے بھی حصہ لیا،جن میں پاکستان سے مشہور گلوکارہ نصیبو لال اور بھارت سے سوکشندر شندا بھی شامل تھے۔ اس سلسلے میں دو اسٹیج بنائے گئے۔ مرکزی اسٹیج پر نصیبو لال نے اپنے مخصوص انداز میں جب گانے گائےتو لوگوں نے انھیں بہت ۔ بارش کے باوجودلوگ ان کی گائیکی سے محظوظ ہوتے رہے، جبکہ دیگر فن کاروں نے بھی اپنی گائیکی سے خوب رنگ جمایا-
مقامی فنکاروں نےاپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہوئے رقص پیش کئے،جس میں نیپالی گروپ کا رقص اور انڈین پنجابی بھنگڑا کافی پسند کیا گیا-
میلہ ہو اور جھولے نہ ہوں تو وہ میلہ نہیں لگتا ہے،یہاں بچوں کے لیے طرح طرح کے جھولے موجود تھے جن میں کے بچوں کے والدین بھی جھولتے نظر آئے۔ فیس پینٹنگ کرواتے یہ بچے صحیح معنوں میں اس میلے کی رونق معلوم ہو رہے تھے۔ رنگ برنگے کپڑوں کے اسٹال خواتین کے کیے سب سے پسندیدہ جگہ تھی،تاہم لذیذ کھانوں کے اسٹالوں سے اٹھتی خوشبو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی-مٹن کڑاھی،بریانی،تکے ،نان اور تلی ہوئی مچھلی سے سجے اسٹالوں پر بہت ذیادہ بھیڑ جمع تھی-
کبڈی جی ہاں اس کھیل کے شوقینوں نے یہاں مانچسٹر کے میلے میں کبڈی کا مقابلہ بھی کروایا جہاں موجود مردوں کی تعداد دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اس کھیل کو یہاں کتنا یاد کرتے ہیں ۔ ایک بنگلا دیشی نوجوان جو خود تو پہلوان' معلوم ہوتے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف کبڈی کا مقابلہ دیکھنے آئے ہیں،کچھ مقامی ہندوستانی طالب علموں کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی کمیونٹی مانچسٹر میں بڑی تعدادمیں نہیں مگر وہ اس طرح کی تقریبات میں جانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہماری ثقافت ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہے-
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ آئی تھی ۔ اس کے علاوہ مقامی افراد کا بھی کہنا تھا کی وہ اس میلے میں ہر سال آتے ہیں کیونکہ یہ مانچسٹر شہر کا ایک بہت بڑا میلہ ہے-
یہاں آباد لوگوں کے اپنے ملکوں میں تعلقات خواہ کیسے ہی ہوں لیکن یہاں یعنی برطانیہ کی سر زمین پر تمام ملکوں کے تارکین وطن باہمی خیر سگالی،رواداری اور محبت و خلوص کے ساتھ رہتے ہیں-
ساوتھ ایشین ملکوں کا ثقا فتی ورثہ صحیح معنوں میں ایک ایسا گلدستہ ہے جس کا ہر پھول منفرد اور اچھوتااور اس کی خوشبولاجواب ہے۔
پلٹ فیلڈ پارک میں بی بی سی کے تعاون سے منعقد ہونے والے اس میلےکا اہتمام مانچسٹر میگا میلہ مینجمینٹ کمیٹی کی جانب سے کیا گیا۔ اس کا آغاز 1989 میں ہوا تھا اور اب تک ہر سال باقاعدگی سے منعقد کیا جاتا ہے۔ اس دو روزہ میلے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی- وی او اے سے انتظامیہ کے ایک رکن نصراللہ مغل نے بات چیت کرتے ہوئےبتایا کہ' اس سال بارش کی وجہ سے پہلے دن لوگوں کی تعداد کم رہی ۔،اس بڑے میلے کی کامیابی پانچوں ممالک کی مشترکہ کوشش کا نتیجہ ہے۔
ثقافتی میلہ یعنی موسیقی ،رقص،کھانےاور روایتی فن دستگاری سے سجے مانچسٹر میلے میں بنالاقوامی گلوکاروں کے علاوہ مقامی فن کاروں نے بھی حصہ لیا،جن میں پاکستان سے مشہور گلوکارہ نصیبو لال اور بھارت سے سوکشندر شندا بھی شامل تھے۔ اس سلسلے میں دو اسٹیج بنائے گئے۔ مرکزی اسٹیج پر نصیبو لال نے اپنے مخصوص انداز میں جب گانے گائےتو لوگوں نے انھیں بہت ۔ بارش کے باوجودلوگ ان کی گائیکی سے محظوظ ہوتے رہے، جبکہ دیگر فن کاروں نے بھی اپنی گائیکی سے خوب رنگ جمایا-
مقامی فنکاروں نےاپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے ہوئے رقص پیش کئے،جس میں نیپالی گروپ کا رقص اور انڈین پنجابی بھنگڑا کافی پسند کیا گیا-
میلہ ہو اور جھولے نہ ہوں تو وہ میلہ نہیں لگتا ہے،یہاں بچوں کے لیے طرح طرح کے جھولے موجود تھے جن میں کے بچوں کے والدین بھی جھولتے نظر آئے۔ فیس پینٹنگ کرواتے یہ بچے صحیح معنوں میں اس میلے کی رونق معلوم ہو رہے تھے۔ رنگ برنگے کپڑوں کے اسٹال خواتین کے کیے سب سے پسندیدہ جگہ تھی،تاہم لذیذ کھانوں کے اسٹالوں سے اٹھتی خوشبو لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی-مٹن کڑاھی،بریانی،تکے ،نان اور تلی ہوئی مچھلی سے سجے اسٹالوں پر بہت ذیادہ بھیڑ جمع تھی-
کبڈی جی ہاں اس کھیل کے شوقینوں نے یہاں مانچسٹر کے میلے میں کبڈی کا مقابلہ بھی کروایا جہاں موجود مردوں کی تعداد دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ اس کھیل کو یہاں کتنا یاد کرتے ہیں ۔ ایک بنگلا دیشی نوجوان جو خود تو پہلوان' معلوم ہوتے تھے ،ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف کبڈی کا مقابلہ دیکھنے آئے ہیں،کچھ مقامی ہندوستانی طالب علموں کا کہنا تھا کہ اگرچہ ان کی کمیونٹی مانچسٹر میں بڑی تعدادمیں نہیں مگر وہ اس طرح کی تقریبات میں جانا پسند کرتے ہیں کیوں کہ ہماری ثقافت ایک دوسرے سے بہت ملتی جلتی ہے-
پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہاں اپنے خاندانوں کے ساتھ آئی تھی ۔ اس کے علاوہ مقامی افراد کا بھی کہنا تھا کی وہ اس میلے میں ہر سال آتے ہیں کیونکہ یہ مانچسٹر شہر کا ایک بہت بڑا میلہ ہے-
یہاں آباد لوگوں کے اپنے ملکوں میں تعلقات خواہ کیسے ہی ہوں لیکن یہاں یعنی برطانیہ کی سر زمین پر تمام ملکوں کے تارکین وطن باہمی خیر سگالی،رواداری اور محبت و خلوص کے ساتھ رہتے ہیں-