امریكی ریاست نارتھ كیرولینا میں ڈیموكریٹک پارٹی كے قومی كنونشن كے دوسرے دن اس وقت ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہو گئی جب كنونش كے چیئرمین اور لاس اینجلیس كے گورنر انٹونیو والاری گوسا نے پارٹی كے پلیٹ فارم میں یروشلم كو اسرائیل كا دارالحكومت تسلیم كرنے كے الفاظ شامل كیے جانے پر رائے شماری كروائی۔
شارلٹ شہر میں جاری کنونش کے دوران ہجوم میں اس بارے میں ہاں كہنے والوں كے ساتھ ساتھ نا كہنے والوں كی آوازیں بھی بہت بلند تھیی۔
پلیٹ فارم میں كسی بھی تبدیلی كے لیے دو تہائی اكثریت دركار ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ اس قدر مشكل ہو گیا كہ كنونشن كے چیئرمین کو تین دفعہ ووٹنگ كروانی پڑی مگر ہر بار ’’نپ‘‘ یعنی نا کہنے والوں كی آواز بھی بہت بلند تھی۔
تیسری بار ووٹنگ كروانے كے بعد چیئرمین نے ہاں كہنے والوں كو دو تہائی اكثریت كے طور پر تسلیم كر لیا لیكن ان كے اس اعلان كے بعد ایرینا میں موجود ڈیلیگیٹس نے 'ہوٹنگ' یعنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس واقعے كے بعد صدر اوباما اور ڈیموكریٹک پارٹی كے لیے اسرائیل كے بارے میں اپنی پالیسی كا دفاع كرنا مزید مشکل ہو جائے گا كیونكہ صدارتی انتخاب میں اُن کے حریف ری پبلیكن پارٹی كے امیدوار مٹ رومنی پہلے ہی امریکی صدر پر الزام لگا چكے ہیں كہ اُنھوں نے اسرایل كو اكیلا چھوڑ دیا ہے۔
ذرائع كے مطابق صدر اوباما كو جب پتا چلا كہ یروشلم كو اسرائیل كا دارالخلافہ تسلیم كرنے كی لائن پارٹی كے پلیٹ فارم سے حذف كر دی گئ ہے تو انہوں نے خود مداخلت كر كے اسے دوبارہ شامل کروایا۔
تجزیہ كاروں كے مطابق اس اقدام كی وجہ امریكہ میں مقیم اسرائیل نواز حلقوں اور ایسے یہودی ووٹروں كو مطمئن كرنا تھا جو صدر اوباما کی ڈیموكریٹک پارٹی كی حمایت كرتے ہیں۔
خاص طور پر نیو یارک میں بسنے والے یہودی امریكی اور اسرائیل كے حمایتی گروپس نہ صرف صدر اوباما كو عطیات دیتے ہیں بلكہ اس ریاست سے كانگریس اور سینیٹ كے انتخابات لڑنے والے ڈیموكریٹک امیدواروں كو بھی انتخابی مہم كی مدد میں مالی امداد دیتے ہیں۔
اس قومی کنونشن میں صدر اوباما کو اس عہدے کے لیے دوبارہ اُمیدوار نامزد کیا جائے گا۔
بدھ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں سابق صدر بل کلنٹن نے اپنی تقریر میں ری پبلیکنز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے صدر اوباما اور امریکہ کے لیے ماسوائے مسائل اور پریشانیوں کے کچھ اور نہیں چھوڑا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو منتخب کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جیتنے والے معاشرے کا سب کچھ سمیٹ لیں گے۔
سابق صدر نے مسٹر براک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کی حمایت کی۔
ڈیموکریٹس مٹ رومنی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سرمایہ دار ہونے کے ناطے ایک ایسی سوچ رکھتے ہیں جس کا فائدہ صرف سرمایہ دار طبقے کو پہنچ سکتا ہے جب کہ ری پبلیکنز اوباما انتظامیہ کو اقتصادی سست روی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔
براک اوباما کے لیے بل کلنٹن کی حمایت کو تجزیہ کار بڑا اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر کلنٹن کو ایک مقبول شخصیت اور کامیاب امریکی صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی آٹھ سالہ صدارت میں امریکہ میں معاشی خوشحالی تھی اور بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع میسر تھے۔
بدھ کو امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے شہر شارلٹ میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے دوسرے روز سابق صدر بل کلنٹن کی تقریر سے قبل کئی ڈیموکریٹک رہنماؤں نے صدر اوباما کی پالیسوں کی حمایت میں تقریریں کیں اور ری پبلیکنز کے منشور کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا۔
شارلٹ شہر میں جاری کنونش کے دوران ہجوم میں اس بارے میں ہاں كہنے والوں كے ساتھ ساتھ نا كہنے والوں كی آوازیں بھی بہت بلند تھیی۔
پلیٹ فارم میں كسی بھی تبدیلی كے لیے دو تہائی اكثریت دركار ہوتی ہے۔ یہ مرحلہ اس قدر مشكل ہو گیا كہ كنونشن كے چیئرمین کو تین دفعہ ووٹنگ كروانی پڑی مگر ہر بار ’’نپ‘‘ یعنی نا کہنے والوں كی آواز بھی بہت بلند تھی۔
تیسری بار ووٹنگ كروانے كے بعد چیئرمین نے ہاں كہنے والوں كو دو تہائی اكثریت كے طور پر تسلیم كر لیا لیكن ان كے اس اعلان كے بعد ایرینا میں موجود ڈیلیگیٹس نے 'ہوٹنگ' یعنی ناراضگی کا اظہار کیا۔
اس واقعے كے بعد صدر اوباما اور ڈیموكریٹک پارٹی كے لیے اسرائیل كے بارے میں اپنی پالیسی كا دفاع كرنا مزید مشکل ہو جائے گا كیونكہ صدارتی انتخاب میں اُن کے حریف ری پبلیكن پارٹی كے امیدوار مٹ رومنی پہلے ہی امریکی صدر پر الزام لگا چكے ہیں كہ اُنھوں نے اسرایل كو اكیلا چھوڑ دیا ہے۔
ذرائع كے مطابق صدر اوباما كو جب پتا چلا كہ یروشلم كو اسرائیل كا دارالخلافہ تسلیم كرنے كی لائن پارٹی كے پلیٹ فارم سے حذف كر دی گئ ہے تو انہوں نے خود مداخلت كر كے اسے دوبارہ شامل کروایا۔
تجزیہ كاروں كے مطابق اس اقدام كی وجہ امریكہ میں مقیم اسرائیل نواز حلقوں اور ایسے یہودی ووٹروں كو مطمئن كرنا تھا جو صدر اوباما کی ڈیموكریٹک پارٹی كی حمایت كرتے ہیں۔
خاص طور پر نیو یارک میں بسنے والے یہودی امریكی اور اسرائیل كے حمایتی گروپس نہ صرف صدر اوباما كو عطیات دیتے ہیں بلكہ اس ریاست سے كانگریس اور سینیٹ كے انتخابات لڑنے والے ڈیموكریٹک امیدواروں كو بھی انتخابی مہم كی مدد میں مالی امداد دیتے ہیں۔
اس قومی کنونشن میں صدر اوباما کو اس عہدے کے لیے دوبارہ اُمیدوار نامزد کیا جائے گا۔
بدھ کو ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں سابق صدر بل کلنٹن نے اپنی تقریر میں ری پبلیکنز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے صدر اوباما اور امریکہ کے لیے ماسوائے مسائل اور پریشانیوں کے کچھ اور نہیں چھوڑا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ انتخابات میں ووٹرز کو بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنا ہوگا کیونکہ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رومنی کو منتخب کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جیتنے والے معاشرے کا سب کچھ سمیٹ لیں گے۔
سابق صدر نے مسٹر براک اوباما کی ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی کی حمایت کی۔
ڈیموکریٹس مٹ رومنی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ سرمایہ دار ہونے کے ناطے ایک ایسی سوچ رکھتے ہیں جس کا فائدہ صرف سرمایہ دار طبقے کو پہنچ سکتا ہے جب کہ ری پبلیکنز اوباما انتظامیہ کو اقتصادی سست روی اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی معاشی پالیسیاں ناکام ہو چکی ہیں۔
براک اوباما کے لیے بل کلنٹن کی حمایت کو تجزیہ کار بڑا اہم قرار دے رہے ہیں کیونکہ مسٹر کلنٹن کو ایک مقبول شخصیت اور کامیاب امریکی صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ان کی آٹھ سالہ صدارت میں امریکہ میں معاشی خوشحالی تھی اور بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع میسر تھے۔
بدھ کو امریکی ریاست نارتھ کیرولینا کے شہر شارلٹ میں ڈیموکریٹک نیشنل کنونشن کے دوسرے روز سابق صدر بل کلنٹن کی تقریر سے قبل کئی ڈیموکریٹک رہنماؤں نے صدر اوباما کی پالیسوں کی حمایت میں تقریریں کیں اور ری پبلیکنز کے منشور کو اپنی تنقید کا ہدف بنایا۔