شارلیٹ، نارتھ کیرولائنا —
امریکہ میں ریاست نارتھ کیرولائنا کے شہر شارلٹ میں ڈیموکریٹس کا قومی کنونشن جاری ہے ۔ اس کنونشن میں صدر براک اوباما کو باقاعدہ طور پر صدارت کی دوسری چار سال کی مدت کے لیے نامزد کیا جائے گا ۔ آج کل سیاسی کنونشن انتخاب کے نزدیک پارٹی میں اتحاد کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس موقع پر سرگرم سیاسی کارکن، خصوصی مفادات کے گروپس، اور ملک بھر کی ممتاز شخصیتیں بھی جمع ہوتی ہیں۔
اس ہفتے شارلیٹ کی سڑکوں پر ڈیموکریٹس کا ہجوم ہے اور ان کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسرے رنگا رنگ کردار بھی نظر آئیں گے۔
سڑکوں پر عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے جسٹس ایڈورڈز کہتے ہیں کہ یہی وقت ہے جب لوگوں کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیئے۔ ’’ آپ کون سا ہاتھ تھامیں گے؟ دایاں ہاتھ جو فیصلے والا ہاتھ ہے یا بایاں ہاتھ جو محبت کا ہاتھ ہے؟‘‘
فلوریڈا کے اسکاٹ اسمتھ سڑکوں پر تبلیغ کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کے بھیجے ہوئے مبلغ کنونشنوں اور دوسرے اہم موقعوں پر جیسے لندن کے حالیہ اولمپک کھیلوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اسمتھ کہتےہیں’’ہم جو کام کرتےہیں وہ آزادیٔ تقریر اور آزادیٔ مذہب کا مظہر ہے، اور شکر ہے کہ اس ملک میں ہمیں اب تک یہ دونوں آزادیاں میسر ہیں۔‘‘
یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ڈینیئل رابرٹسن ڈیموکریٹک کنونشن کے بارے میں ایک پروگرام فروخت کر رہے ہیں جس میں صدر اوباما کی بہت سی تصویریں ہیں۔
رابرٹسن یہ چیزیں گذشتہ ہفتے ریپبلیکنز کے کنونشن میں فروخت نہیں کر سکے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہاں ڈیموکریٹس کے ہجوم میں انہیں کہیں زیادہ کامیابی ہو رہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’میں ریپبلیکن کنونشن میں شرکت کے لیے فلوریڈا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں یہاں تو میلے کا سا سماں ہے ۔ یہاں بڑا مزا آ رہا ہے ۔ ماحول بہت خوشگوار ہے اور لوگوں کا رویہ بہت دوستانہ ہے ۔‘‘
دوسرے لوگ یہاں زیادہ سنجیدہ مشن پر ہیں سلے ٹر ڈوور کا تعلق مغربی ریاست ویومنگ سے ہے اور وہ ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹ ہیں ۔
ڈوور کی عمر 65 سال ہے اور وہ افریقی امریکی ہیں۔ وہ شارلٹ کے نزدیک ہی نارتھ کیرولائنا میں پلے بڑھے جب وہاں نسلی امتیاز عام تھا ۔ ڈوور کو وہ دور اچھی طرح یاد ہے ۔ انہیں وہ وقت بھی یاد ہےجب ان کی بہن کو مقامی باؤلنگ ایلے میں نسلی تفریق ختم کرنے کی کوشش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
ڈوور نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کی زندگی میں وہ دن آئے گا جو انھوں نے چار سال قبل دیکھا جب براک اوباما پہلے افریقی امریکی صدر بنے ۔ ڈوور جانتے ہیں کہ صدر کے لیے اب اتنا جوش و خروش نہیں ہے جتنا 2008 میں تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ نومبر میں صدر کو دوسری مدت کے لیے منتخب کرانا ان کی زندگی کا مشن ہے ۔
’’ہمیں جوش و خروش کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارا حافظہ اچھا ہونا چاہیئے اور ہم میں حوصلہ ہونا چاہیئے ۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
بڑی عمر کے افریقی امریکیوں کے لیے، خاص طور سے، براک اوباما کا انتخاب امریکہ کی تاریخ میں وہ اہم لمحہ تھا جب کئی عشروں پر پھیلی ہوئی ، برابر کے حقوق کی جدو جہد حقیقت بن گئی ۔
سلے ٹر ڈوور کہتے ہیں کہ نومبر میں مسٹر اوباما کا دوبارہ منتخب ہونا ان کے ذاتی طور سے بے حد اہم ہے۔ ’’اگر ایسا نہ ہوا، تو پھر یہ ملک پھر اسی دور میں واپس چلا جائے گا جب میں ساؤتھ کیرو لائنا میں بڑا ہو رہا تھا۔ اور میں اور لوگوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میں اس دور میں واپس جانے کو تیار نہیں ہوں!‘‘
اوباما کی انتخابی مہم کو امید ہے کہ نومبر میں افریقی امریکی ووٹرز بڑی تعداد میں ووٹ دینے آئیں گے۔ صدر کے حامیوں میں یہ گروپ سب سے زیادہ وفادار ہے ۔
اس ہفتے شارلیٹ کی سڑکوں پر ڈیموکریٹس کا ہجوم ہے اور ان کے ساتھ ساتھ آپ کو دوسرے رنگا رنگ کردار بھی نظر آئیں گے۔
سڑکوں پر عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے جسٹس ایڈورڈز کہتے ہیں کہ یہی وقت ہے جب لوگوں کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنا چاہیئے۔ ’’ آپ کون سا ہاتھ تھامیں گے؟ دایاں ہاتھ جو فیصلے والا ہاتھ ہے یا بایاں ہاتھ جو محبت کا ہاتھ ہے؟‘‘
فلوریڈا کے اسکاٹ اسمتھ سڑکوں پر تبلیغ کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کے بھیجے ہوئے مبلغ کنونشنوں اور دوسرے اہم موقعوں پر جیسے لندن کے حالیہ اولمپک کھیلوں میں موجود ہوتے ہیں۔ اسمتھ کہتےہیں’’ہم جو کام کرتےہیں وہ آزادیٔ تقریر اور آزادیٔ مذہب کا مظہر ہے، اور شکر ہے کہ اس ملک میں ہمیں اب تک یہ دونوں آزادیاں میسر ہیں۔‘‘
یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر ڈینیئل رابرٹسن ڈیموکریٹک کنونشن کے بارے میں ایک پروگرام فروخت کر رہے ہیں جس میں صدر اوباما کی بہت سی تصویریں ہیں۔
رابرٹسن یہ چیزیں گذشتہ ہفتے ریپبلیکنز کے کنونشن میں فروخت نہیں کر سکے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہاں ڈیموکریٹس کے ہجوم میں انہیں کہیں زیادہ کامیابی ہو رہی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ’’میں ریپبلیکن کنونشن میں شرکت کے لیے فلوریڈا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں یہاں تو میلے کا سا سماں ہے ۔ یہاں بڑا مزا آ رہا ہے ۔ ماحول بہت خوشگوار ہے اور لوگوں کا رویہ بہت دوستانہ ہے ۔‘‘
دوسرے لوگ یہاں زیادہ سنجیدہ مشن پر ہیں سلے ٹر ڈوور کا تعلق مغربی ریاست ویومنگ سے ہے اور وہ ڈیموکریٹک ڈیلی گیٹ ہیں ۔
ڈوور کی عمر 65 سال ہے اور وہ افریقی امریکی ہیں۔ وہ شارلٹ کے نزدیک ہی نارتھ کیرولائنا میں پلے بڑھے جب وہاں نسلی امتیاز عام تھا ۔ ڈوور کو وہ دور اچھی طرح یاد ہے ۔ انہیں وہ وقت بھی یاد ہےجب ان کی بہن کو مقامی باؤلنگ ایلے میں نسلی تفریق ختم کرنے کی کوشش میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔
ڈوور نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ان کی زندگی میں وہ دن آئے گا جو انھوں نے چار سال قبل دیکھا جب براک اوباما پہلے افریقی امریکی صدر بنے ۔ ڈوور جانتے ہیں کہ صدر کے لیے اب اتنا جوش و خروش نہیں ہے جتنا 2008 میں تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ نومبر میں صدر کو دوسری مدت کے لیے منتخب کرانا ان کی زندگی کا مشن ہے ۔
’’ہمیں جوش و خروش کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمارا حافظہ اچھا ہونا چاہیئے اور ہم میں حوصلہ ہونا چاہیئے ۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
بڑی عمر کے افریقی امریکیوں کے لیے، خاص طور سے، براک اوباما کا انتخاب امریکہ کی تاریخ میں وہ اہم لمحہ تھا جب کئی عشروں پر پھیلی ہوئی ، برابر کے حقوق کی جدو جہد حقیقت بن گئی ۔
سلے ٹر ڈوور کہتے ہیں کہ نومبر میں مسٹر اوباما کا دوبارہ منتخب ہونا ان کے ذاتی طور سے بے حد اہم ہے۔ ’’اگر ایسا نہ ہوا، تو پھر یہ ملک پھر اسی دور میں واپس چلا جائے گا جب میں ساؤتھ کیرو لائنا میں بڑا ہو رہا تھا۔ اور میں اور لوگوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن میں اس دور میں واپس جانے کو تیار نہیں ہوں!‘‘
اوباما کی انتخابی مہم کو امید ہے کہ نومبر میں افریقی امریکی ووٹرز بڑی تعداد میں ووٹ دینے آئیں گے۔ صدر کے حامیوں میں یہ گروپ سب سے زیادہ وفادار ہے ۔