جمعرات کو ہسپانوی زبان کےایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’یونی ویژن‘ کے ایک پروگرام میں صدر براک اوباما نے کہا کہ حملے کے بارے میں تفتیشی عمل جاری ہے۔
اُنھوں نے کسی مخصوص انٹیلی جنس یا کسی دوسری اطلاع کے بارے میں کچھ نہیں کہا، لیکن یہ بتایا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکتا آیا اِس میں القاعدہ ملوث ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ انتہاپسندوں نے، اُن کے بقول، امریکہ میں تیار ہونے والی مسلمان مخالف وڈیو کے خلاف قدرتی احتجاج کو بہانہ بناتے ہوئے امریکی مفادات کو ضرب لگانے کی کوشش کی۔
بن غازی میں ہونے والے اِس حملے میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر سفارت کار ہلاک ہوئے۔
وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ محکمہٴ خارجہ کے پاس اِس حملے سے متعلق کسی سازش یا امکان کےبارے میں کوئی پیشگی اطلاع موجود نہیں تھی، جِس پر کسی قسم کا کوئی اقدام کیا جاتا۔
اِس وڈیو کے خلاف مشرق وسطیٰ اور دوسرے ملکوں کےدیگر مقامات پر امریکی سفارت خانوں کے سامنے پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ بات عیاں ہے کہ لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والا حملہ ایک دہشت گرد کارروائی تھی۔
اِس سے قبل، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا بیان انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کے ڈائریکٹر میتھیو آسلن کی طرف سے بدھ کو سینیٹ کمیٹی کے سامنے دیے گئے بیان سےمطابقت رکھتا ہے۔ آسلن نے کہا تھا کہ یہ حملہ ، اُن کے بقول، موقعے سے فائدہ اٹھانے کی ایک کوشش تھی، جِس طرح کی بگڑی ہوئی صورت ِحال کئی گھنٹوں سےجاری تھی۔
خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن جعرات کو قانون سازوں کے لیے منعقد کی جانے والی انٹیلی جنس کی ایک نجی بریفینگ کے دوران حملے کے بارے میں بتائیں گی۔
منگل کو اُنھوں نے کہا تھا کہ محکمہٴ خارجہ کے پاس کسی سازش تیار کیے جانےیا امکانی حملے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، جس پر کوئی اقدام کیا جاتا۔
دریں اثنا، محکمہٴ خارجہ کے معاون وزیر ولیم برنز اِس وقت لیبیا میں ہیں، جہاں وہ گذشتہ ہفتے بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کےبارے میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔
ساتھ ہی برنز نے ایک خصوصی تعزیتی اجلاس میں شرکت کی جو حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور دیگر تین امریکی سفارت کاروں کی یاد میں منعقد کیا گیا۔
یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اسلام مخالف وڈیو کے بارے میں ایک احتجاجی مظاہرہ جاری تھا، جو نجی طور پر امریکہ میں تیار ہوئی تھی۔
اُنھوں نے کسی مخصوص انٹیلی جنس یا کسی دوسری اطلاع کے بارے میں کچھ نہیں کہا، لیکن یہ بتایا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکتا آیا اِس میں القاعدہ ملوث ہے۔
مسٹر اوباما نے کہا کہ انتہاپسندوں نے، اُن کے بقول، امریکہ میں تیار ہونے والی مسلمان مخالف وڈیو کے خلاف قدرتی احتجاج کو بہانہ بناتے ہوئے امریکی مفادات کو ضرب لگانے کی کوشش کی۔
بن غازی میں ہونے والے اِس حملے میں لیبیا میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور تین دیگر سفارت کار ہلاک ہوئے۔
وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا کہ محکمہٴ خارجہ کے پاس اِس حملے سے متعلق کسی سازش یا امکان کےبارے میں کوئی پیشگی اطلاع موجود نہیں تھی، جِس پر کسی قسم کا کوئی اقدام کیا جاتا۔
اِس وڈیو کے خلاف مشرق وسطیٰ اور دوسرے ملکوں کےدیگر مقامات پر امریکی سفارت خانوں کے سامنے پُرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
جمعرات کو وائٹ ہاؤس نے کہا کہ یہ بات عیاں ہے کہ لیبیا میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والا حملہ ایک دہشت گرد کارروائی تھی۔
اِس سے قبل، وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کا بیان انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کے ڈائریکٹر میتھیو آسلن کی طرف سے بدھ کو سینیٹ کمیٹی کے سامنے دیے گئے بیان سےمطابقت رکھتا ہے۔ آسلن نے کہا تھا کہ یہ حملہ ، اُن کے بقول، موقعے سے فائدہ اٹھانے کی ایک کوشش تھی، جِس طرح کی بگڑی ہوئی صورت ِحال کئی گھنٹوں سےجاری تھی۔
خیال ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن جعرات کو قانون سازوں کے لیے منعقد کی جانے والی انٹیلی جنس کی ایک نجی بریفینگ کے دوران حملے کے بارے میں بتائیں گی۔
منگل کو اُنھوں نے کہا تھا کہ محکمہٴ خارجہ کے پاس کسی سازش تیار کیے جانےیا امکانی حملے کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی، جس پر کوئی اقدام کیا جاتا۔
دریں اثنا، محکمہٴ خارجہ کے معاون وزیر ولیم برنز اِس وقت لیبیا میں ہیں، جہاں وہ گذشتہ ہفتے بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کےبارے میں اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کرنے والے ہیں۔
ساتھ ہی برنز نے ایک خصوصی تعزیتی اجلاس میں شرکت کی جو حملے میں ہلاک ہونے والے امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز اور دیگر تین امریکی سفارت کاروں کی یاد میں منعقد کیا گیا۔
یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اسلام مخالف وڈیو کے بارے میں ایک احتجاجی مظاہرہ جاری تھا، جو نجی طور پر امریکہ میں تیار ہوئی تھی۔