برطانوی ادارے ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کی ایک نئی تحقیق کے مطابق، 2030ء تک کینسر پر ہونے والی اموات میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔لیکن، الکوہل اور تمباکو کا استعمال معدے اور منہ کے کینسر کے باعث اموات میں اضافے کا باعث بنے گا۔
سنہ 1975ء سے 2010ء تک کے اعداد و شمار پر ہونے والی ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کی تحقیق کے مطابق سنہ 2030ء تک کینسر کے باعث ہونے والی اموات میں 17فی صد کمی واقع ہوگی۔
لیکن، الکوہل اور تمباکو نوشی کے باعث 2030ء میں صرف برطانیہ میں منہ کے کینسر کے 9000سے زیادہ کیس تشخیص ہوں گے، جو کہ 2010ء کے مقابلےمیں 3000زیادہ ہوں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کی ترجمان اور ریسرچر کہتی ہیں کہ ’ ہیومن پاپولہ وائرس‘ سے ہونے والے انفیکشن کے واقعات میں اضافے سمیت الکوہل اور تمباکو نوشی بھی منہ کے کینسر کے کیسز بڑھنے کی وجوہات ہیں۔
ادارے کی نئی تحقیق میں اعداد و شمار، ترقی یافتہ ممالک سے لیے گئے ہیں جہاں مرض کی بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سہولیات ترقی پذیر اورغریب ممالک سے کافی بہتر ہیں۔
اِس بارے میں ادارے کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر اورغریب ممالک میں کینسر کی بیماریوں سے موت کی شرح زیادہ ہے، کیونکہ اکثر ممالک میں تو مرض کی تشخیص کے لیے اسکریننگ پروگرام ہی موجود نہیں۔ اِسی طرح، وہاں تمباکو چبانے سے پیدا ہونے والا وائرس ’ایچ پائرولی‘ اور’ ہیپاٹائٹس بی‘ اور ‘ سی‘ کے باعث جگر کے کینسر کی شرح قدرے زیادہ ہے۔
کینسر رسرچ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق، پھیپھڑوں، چھاتی اور آنت کے کینسر مہلک ترین بیماریوں میں شامل ہیں۔ لیکن، مرض کی بروقت تشخیص اور ماضی کی بنسبت علاج معالجے کی قدرے بہتر سہولیات کے باعث، سنہ 2030ء تک مجموعی طور پر کینسر کے باعث ہونے والی اموات میں 17فی صد کمی واقع ہوگی۔
سنہ 1975ء سے 2010ء تک کے اعداد و شمار پر ہونے والی ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کی تحقیق کے مطابق سنہ 2030ء تک کینسر کے باعث ہونے والی اموات میں 17فی صد کمی واقع ہوگی۔
لیکن، الکوہل اور تمباکو نوشی کے باعث 2030ء میں صرف برطانیہ میں منہ کے کینسر کے 9000سے زیادہ کیس تشخیص ہوں گے، جو کہ 2010ء کے مقابلےمیں 3000زیادہ ہوں گے۔
’وائس آف امریکہ‘ سے بات چیت کرتے ہوئے ’کینسر ریسرچ یو کے‘ کی ترجمان اور ریسرچر کہتی ہیں کہ ’ ہیومن پاپولہ وائرس‘ سے ہونے والے انفیکشن کے واقعات میں اضافے سمیت الکوہل اور تمباکو نوشی بھی منہ کے کینسر کے کیسز بڑھنے کی وجوہات ہیں۔
ادارے کی نئی تحقیق میں اعداد و شمار، ترقی یافتہ ممالک سے لیے گئے ہیں جہاں مرض کی بروقت تشخیص اور علاج معالجے کی سہولیات ترقی پذیر اورغریب ممالک سے کافی بہتر ہیں۔
اِس بارے میں ادارے کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر اورغریب ممالک میں کینسر کی بیماریوں سے موت کی شرح زیادہ ہے، کیونکہ اکثر ممالک میں تو مرض کی تشخیص کے لیے اسکریننگ پروگرام ہی موجود نہیں۔ اِسی طرح، وہاں تمباکو چبانے سے پیدا ہونے والا وائرس ’ایچ پائرولی‘ اور’ ہیپاٹائٹس بی‘ اور ‘ سی‘ کے باعث جگر کے کینسر کی شرح قدرے زیادہ ہے۔
کینسر رسرچ کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق، پھیپھڑوں، چھاتی اور آنت کے کینسر مہلک ترین بیماریوں میں شامل ہیں۔ لیکن، مرض کی بروقت تشخیص اور ماضی کی بنسبت علاج معالجے کی قدرے بہتر سہولیات کے باعث، سنہ 2030ء تک مجموعی طور پر کینسر کے باعث ہونے والی اموات میں 17فی صد کمی واقع ہوگی۔