پاکستانی معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آرہی ہے ۔مارشل لاء کے دورکا موجودہ عہد سے موازنہ کریں تو بعض حیران کن تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ خصوصاً سابق عسکری صدر ضیاء الحق کے دور میں جب ٹی وی ڈراموں کی ہیروئن سوتے وقت بھی دوپٹہ سر پر پہنے نظر آتی تھی اور ہیرو ہیروئن اتنے ’فاصلے ‘سے باتیں کیا کرتے تھے کہ لگتا تھاکہ شاید انہیں کوئی ’موذی مرض ہے ‘ قریب آئے تو ایک کی بیماری دوسرے کو لگ جائے گی ۔
کراچی کے دیرینہ رہائشی 65سالہ ذوالفقار نقوی جنہوں نے کئی دوراپنی آنکھوں سے دیکھے وی او اے کو بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کا ابتدائی مارشل لاء دور بہت سخت تھا۔ میڈیا پر اس قدر سخت پابندیاں عائد تھیں کہ پورا کا پورا اخبار سنسرہوجاتا تھا حتیٰ کہ بہت سے ایسے الفاظ بھی سنسر کردیئے جاتے تھے جو ہنسی کا باعث ہوتے تھے مثلاً ’دل برداشتہ‘ کہ اس کے آخری حروف سے بنالفظ سنسر کی زد میں آجاتاتھا۔
لیکن وقت بدلا اور مسلسل بدل رہا ہے۔۔۔ اب ایساکچھ نہیں رہا ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ روزنامہ’ ایکسپریس ‘کی ایک رپورٹ بتارہی ہے کہ پاکستان میں کورٹ میرج کے رجحان میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ یومیہ 50سے زائد ’پریمی جوڑے‘ لومیرج یا پسند کی شادی کے لئے سٹی کورٹ سے رجوع کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سماجی مسائل اور شعور نہ رکھنے کے باعث لڑکیاں گھروں سے فرار ہوکر شادی کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ ا ن لڑکیوں میں سب سے زیادہ تعداد فیکٹری ورکرز کی ہے جو اپنی مرضی سے شادی کرکے زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں جبکہ اندورن ملک وٹے سٹے کی شادی، کاری اور ونی قرار دی گئی خواتین بھی پسند کی شادی کوترجیح دے رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سٹی کورٹ کی عمارت کے اطراف واقع طاہر پلازہ ،عزیز چیمبر او ردیگر عمارتوں میں تقریباً 17نکاخ خواں کے دفاتر ہیں ،چار نکاح خواں یونین کونسل 5 صدر سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ دیگر نکاح خواں سلطان آباد، محمدی کالونی، اورنگی ٹاؤن و دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 10سے زائد جسٹس آف پیس ہیں، متعدد کے لائسنس کی معیاد بھی ختم ہوچکی ہے لیکن خود مختاری کی تصدیق کررہے ہیں۔
نکاح خواہوں کے ریکارڈ کے مطابق لڑکیوں اور لڑکوں میں روز بروز پسندکی شادی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور روزانہ کراچی و اندرون ملک سے تقریباً50سے زائد لڑکیاں کورٹ میرج کیلئے نکاح خواہوں سے رجوع کرتی ہیں۔
ان میں زیادہ تر تعداد ان لڑکیوں کی ہے جنھیں یا تو پسند کا اظہار کرنے پر کاری قرار دیا گیا یا جو فیکٹری ورکرز ہیں اور جن کی آمدنی بہت کم ہے۔ جنوبی پنجاب سے فرار ہوکرکراچی آنے والی لڑکیاں وٹے سٹے جیسی فرسودہ روایات سے بغاوت کرنے کے بعد گھر میں قید کے خوف سے نجات کے لئے بھی کورٹ میرج کو ترجیح دے رہی ہیں۔
دینی مدارس سے فارغ التحصیل ایک اور شہری عبداللہ فاخر کا کہنا ہے کہ اسلام میں لڑکی اپنی پسند کی شادی کرسکتی ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ۔ بلکہ اسلام میں شادی کے لئے لڑکی کی مرضی معلوم کرنا دینی فریضہ ہے مگر بسااوقات والدین یا خاندانی برزگوں کی اپنی مرضی آڑے آجاتی ہے جس کے سب لڑکیوں کو یاتو گھر سے بھاگنا پڑتا ہے یا پھر وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ تبدیل ہورہا ہے لڑکیوں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی جسارت آتی جارہی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا اور تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کو اکثریت’ آوارگی‘ خیال کرتی ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں ’ لڑکی کی اپنی پسند‘کوئی معنی نہیں رکھتی۔ والدین کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ’ اولادکے لئے والدین سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا‘۔
معاشرے کی اس تبدیلی کا ذمے دار کہیں پڑوسی ممالک کی فلموں کی قرار دیاجارہا ہے تو کہیں موبائل فون کا بے دریغ استعمال اس کا قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ کچھ تو ’کو ایجوکشن ‘ کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہرارہے ہیں تو کچھ حالیہ برسوں میں آزاد ہونے والے میڈیا کو اس کی ’بنیادی جڑ‘ قرار دے رہے ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں پسند کی شادی کرنے والوں کی شرح میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے ۔
کراچی کے دیرینہ رہائشی 65سالہ ذوالفقار نقوی جنہوں نے کئی دوراپنی آنکھوں سے دیکھے وی او اے کو بتاتے ہیں کہ ضیاء الحق کا ابتدائی مارشل لاء دور بہت سخت تھا۔ میڈیا پر اس قدر سخت پابندیاں عائد تھیں کہ پورا کا پورا اخبار سنسرہوجاتا تھا حتیٰ کہ بہت سے ایسے الفاظ بھی سنسر کردیئے جاتے تھے جو ہنسی کا باعث ہوتے تھے مثلاً ’دل برداشتہ‘ کہ اس کے آخری حروف سے بنالفظ سنسر کی زد میں آجاتاتھا۔
لیکن وقت بدلا اور مسلسل بدل رہا ہے۔۔۔ اب ایساکچھ نہیں رہا ۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ روزنامہ’ ایکسپریس ‘کی ایک رپورٹ بتارہی ہے کہ پاکستان میں کورٹ میرج کے رجحان میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے کہ یومیہ 50سے زائد ’پریمی جوڑے‘ لومیرج یا پسند کی شادی کے لئے سٹی کورٹ سے رجوع کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سماجی مسائل اور شعور نہ رکھنے کے باعث لڑکیاں گھروں سے فرار ہوکر شادی کو ترجیح دینے لگی ہیں۔ ا ن لڑکیوں میں سب سے زیادہ تعداد فیکٹری ورکرز کی ہے جو اپنی مرضی سے شادی کرکے زندگی گزارنے کی خواہش مند ہیں جبکہ اندورن ملک وٹے سٹے کی شادی، کاری اور ونی قرار دی گئی خواتین بھی پسند کی شادی کوترجیح دے رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سٹی کورٹ کی عمارت کے اطراف واقع طاہر پلازہ ،عزیز چیمبر او ردیگر عمارتوں میں تقریباً 17نکاخ خواں کے دفاتر ہیں ،چار نکاح خواں یونین کونسل 5 صدر سے رجسٹرڈ ہیں جبکہ دیگر نکاح خواں سلطان آباد، محمدی کالونی، اورنگی ٹاؤن و دیگر علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ 10سے زائد جسٹس آف پیس ہیں، متعدد کے لائسنس کی معیاد بھی ختم ہوچکی ہے لیکن خود مختاری کی تصدیق کررہے ہیں۔
نکاح خواہوں کے ریکارڈ کے مطابق لڑکیوں اور لڑکوں میں روز بروز پسندکی شادی کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور روزانہ کراچی و اندرون ملک سے تقریباً50سے زائد لڑکیاں کورٹ میرج کیلئے نکاح خواہوں سے رجوع کرتی ہیں۔
ان میں زیادہ تر تعداد ان لڑکیوں کی ہے جنھیں یا تو پسند کا اظہار کرنے پر کاری قرار دیا گیا یا جو فیکٹری ورکرز ہیں اور جن کی آمدنی بہت کم ہے۔ جنوبی پنجاب سے فرار ہوکرکراچی آنے والی لڑکیاں وٹے سٹے جیسی فرسودہ روایات سے بغاوت کرنے کے بعد گھر میں قید کے خوف سے نجات کے لئے بھی کورٹ میرج کو ترجیح دے رہی ہیں۔
دینی مدارس سے فارغ التحصیل ایک اور شہری عبداللہ فاخر کا کہنا ہے کہ اسلام میں لڑکی اپنی پسند کی شادی کرسکتی ہے اور اس میں کوئی ممانعت نہیں ۔ بلکہ اسلام میں شادی کے لئے لڑکی کی مرضی معلوم کرنا دینی فریضہ ہے مگر بسااوقات والدین یا خاندانی برزگوں کی اپنی مرضی آڑے آجاتی ہے جس کے سب لڑکیوں کو یاتو گھر سے بھاگنا پڑتا ہے یا پھر وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ دیتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے معاشرہ تبدیل ہورہا ہے لڑکیوں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی جسارت آتی جارہی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا اور تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ ابھی تک پاکستانی معاشرے میں پسند کی شادی کو اکثریت’ آوارگی‘ خیال کرتی ہے۔ خصوصاً دیہی علاقوں میں ’ لڑکی کی اپنی پسند‘کوئی معنی نہیں رکھتی۔ والدین کا نظریہ آج بھی یہی ہے کہ’ اولادکے لئے والدین سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا‘۔
معاشرے کی اس تبدیلی کا ذمے دار کہیں پڑوسی ممالک کی فلموں کی قرار دیاجارہا ہے تو کہیں موبائل فون کا بے دریغ استعمال اس کا قصور وار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ کچھ تو ’کو ایجوکشن ‘ کو بھی اس کا ذمے دار ٹھہرارہے ہیں تو کچھ حالیہ برسوں میں آزاد ہونے والے میڈیا کو اس کی ’بنیادی جڑ‘ قرار دے رہے ہیں۔ وجہ چاہے جو بھی ہو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں پسند کی شادی کرنے والوں کی شرح میں اچھا خاصا اضافہ ہوگیا ہے ۔