پاکستان میں حالیہ دنوں میں خاندانی اور قبائلی دشمنیوں کے خاتمے کے لیے کم عمر لڑکیوں کی مخالف فریق کے مردوں سے شادیاں کرنے کے واقعات تواتر سے سامنے آئے ہیں اور ونی نامی اس غیر قانونی رسم کے خلاف طویل عرصے سے ملک میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم عمل تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں ۔
گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے لا ء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے ایک اجلاس میں شرکاء پر زور دیا کہ ونی کی غیر قانونی رسم کے خاتمے کے لیے پارلیمان کو مناسب سفارشات تجویز کریں ۔ مزید برآں چیف جسٹس نے اراکین پارلیمان پر بھی زور دیا کہ وہ اس فرسود ہ رسم کے خاتمے کے لیے قانون سازی پر توجہ دیں ۔
اراکین پارلیمان عمومی طور پر چیف جسٹس کے موقف سے متفق ہیں تاہم اُن کا کہنا ہے کہ مسئلہ قانون سازی کانہیں بلکہ ان پر موثر عمل درآمد کا ہے۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ اور اُن کی حالت زار کی بہتر ی کے لیے کوشاں سرکاری ادارے نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن انیس ہارون نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جرگے اور پنچائیتوں کے ذریعے دشمنیوں کے خاتمے کے بدلے کم عمر لڑکیوں کی مخالف فریق کے مردوں سے شادیاں یا اُنھیں ’ونی‘ کرنے کے خلاف قانون سازی کی ضرورت ہے اور اُن کا ادارہ اس سلسلے میں اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ مرتب کر رہا ہے جسے جلد لا ء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان میں پیش کیا جائے گا۔
حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی مہرین انور راجہ کا کہنا ہے کہ وہ چیف جسٹس کے موقف سے متفق ہیں اور اُن کی جماعت اس ضمن میں ضروری قانون سازی کرے گی۔ ”قوانین پہلے بھی بہت موجود ہیں اوراُن پر موثر عمل درآمد کی ضرور ت ہے ، اس رسم (ونی کے خاتمے) کے حوالے سے جو بھی قانون سازی کرناہوگی ہم ضرور کریں گے“۔
متحدہ قومی موومنٹ کی رکن قومی اسمبلی خوش بخت شجاعت نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فرسودہ رسومات کے خاتمے کے لیے قانون سازی ضروری ہے۔ ” ونی ، کاروکاری اور اس قسم کی دیگر رسومات کے خلاف ضروری ہے ہم قانون سازی کریں اور پارلیمان میں خواتین کے حقوق اور ترقی سے متعلق جتنی کمیٹیاں ہیں اُن میں اس پر کام ہو رہا ہے“۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ریاض فتیانہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کی کمیٹی چیف جسٹس کی سفارش کی روشنی قانون سازی کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کرے گی۔ ”ہم یہ چاہتے ہیں کہ ونی کے نام پر انسانیت کی تذلیل نہ کی جائے ، بے گنا ہ معصوم بچیوں کو روایات کی بھینٹ نا چڑھایا جائے اور اُن کے مستقل کو محفوظ ہاتھوں میں دیا جائے“۔
انیس ہارون نے بتایا کہ پسند کی شادی کرنے والی خواتین کوفرسودہ رسومات کے تحت سزا دینے والوں کے خلاف 2004ء کے ایک قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ لڑکیوں کو ونی کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکے۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے اب بھی خاندانی دشمنیوں کو ختم کرنے کے لیے کم عمر لڑکیوں کی شادیاں بڑی عمر کے مردوں سے کر دی جاتی ہیں۔