کراچی —
بدھ کا روز پاکستان کی لوک موسیقی کے لئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ایک ہی دن میں سندھ کے دوعظیم لوک فنکار مفلسی کی قبا اوڑھے خاموشی سے قبر میں اتر گئے۔ دن کے اوقات میں زینت شیخ اور رات کو صدارتی ایوارڈ یافتہ الغوزہ نوازاللہ بچایوکھوسو انتقال کرگئے ۔
لوک فنکارہ اور اپنی میٹھی آواز کا جادو جگانے والی زینت شیخ سندھ کے چھوٹے سے علاقے ٹھٹھہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ نوے برس کی تھیں اور کافی عرصے سے کینسر کے مرض سے زندگی کی جنگ لڑرہی تھیں۔ نجی ٹی وی اے آروائی نیوزکا کہنا ہے کہ زینت شیخ نے اپنی زندگی کے آخری دن نہایت کسمپرسی میں گزارے۔ غربت نے انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبو رکردیا تھا۔
وہ کشکول لئے ٹھٹھہ کی گلیوں اور محلوں میں اپنے گزر بسر کے لئے لوگوں سے مدد مانگتی تھی ۔اسی حالت میں انہیں کینسر کے مرض نے آگھیرا ۔ان کی بیماری کی اطلاع پرحال ہی میں محکمہ ثقافت سندھ کے خرچ پر اسپتال داخل کرایا گیا تھا لیکن بدھ کے روز ان کا انتقال ہوگیا۔ زینت شیخ کی تدفین مکلی کے تاریخی قبرستان میں ہوئی۔
اسی روز بین الاقوامی صدارتی ایوارڈ یافتہ الگوزا نواز اللہ بچایو کھوسو بھی انتقال کرگئے۔ وہ 100سے زائد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ انہیں پھیپھڑوں کا مرض تھا ۔ ان دنوں وہ ٹنڈو محمد خان کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔
اللہ بچایو کی طبیعت سن 2004ء سے خراب تھی۔اس روز وہ شاہ لطیف کے عرس میں شریک تھے اور الگوزے کی دھن بجانے میں مصروف تھے ۔ سر نکالتے نکالتے وہ اس قدر مگن ہوئے کہ وہیں گر پڑے ۔ اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ انہیں پھیپھڑوں کے مرض سے آگھیرا ہے۔
سخت بیماری میں بھی اللہ بچایو الگوزا بجانے کی کوشش کرتے تھے۔انہوں نے پچاس سال سے زائد کا عرصہ اپنے فن پر نچھاور کیا۔
مرحوم کی تدفین جمعرات کو ان کے آبائی گاوٴں ڈاڈوں میں ہوئی
بدھ کا روز پاکستان کی لوک موسیقی کے لئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا۔ایک ہی دن میں سندھ کے دوعظیم لوک فنکار مفلسی کی قبا اوڑھے خاموشی سے قبر میں اتر گئے۔ دن کے اوقات میں زینت شیخ اور رات کو صدارتی ایوارڈ یافتہ الغوزہ نوازاللہ بچایوکھوسو انتقال کرگئے ۔
لوک فنکارہ اور اپنی میٹھی آواز کا جادو جگانے والی زینت شیخ سندھ کے چھوٹے سے علاقے ٹھٹھہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ نوے برس کی تھیں اور کافی عرصے سے کینسر کے مرض سے زندگی کی جنگ لڑرہی تھیں۔ نجی ٹی وی اے آروائی نیوزکا کہنا ہے کہ زینت شیخ نے اپنی زندگی کے آخری دن نہایت کسمپرسی میں گزارے۔ غربت نے انہیں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبو رکردیا تھا۔
وہ کشکول لئے ٹھٹھہ کی گلیوں اور محلوں میں اپنے گزر بسر کے لئے لوگوں سے مدد مانگتی تھی ۔اسی حالت میں انہیں کینسر کے مرض نے آگھیرا ۔ان کی بیماری کی اطلاع پرحال ہی میں محکمہ ثقافت سندھ کے خرچ پر اسپتال داخل کرایا گیا تھا لیکن بدھ کے روز ان کا انتقال ہوگیا۔ زینت شیخ کی تدفین مکلی کے تاریخی قبرستان میں ہوئی۔
اسی روز بین الاقوامی صدارتی ایوارڈ یافتہ الگوزا نواز اللہ بچایو کھوسو بھی انتقال کرگئے۔ وہ 100سے زائد ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرچکے تھے۔ انہیں پھیپھڑوں کا مرض تھا ۔ ان دنوں وہ ٹنڈو محمد خان کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔
اللہ بچایو کی طبیعت سن 2004ء سے خراب تھی۔اس روز وہ شاہ لطیف کے عرس میں شریک تھے اور الگوزے کی دھن بجانے میں مصروف تھے ۔ سر نکالتے نکالتے وہ اس قدر مگن ہوئے کہ وہیں گر پڑے ۔ اسی دوران یہ بات سامنے آئی کہ انہیں پھیپھڑوں کے مرض سے آگھیرا ہے۔
سخت بیماری میں بھی اللہ بچایو الگوزا بجانے کی کوشش کرتے تھے۔انہوں نے پچاس سال سے زائد کا عرصہ اپنے فن پر نچھاور کیا۔
مرحوم کی تدفین جمعرات کو ان کے آبائی گاوٴں ڈاڈوں میں ہوئی