وال سٹریٹ جرنل
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق مصر کے صدر محمد مرسی کے مخالفین نے مکالمے کے لئے ان کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور یہ عہد دُہرایا ہے کہ وہ اپنے احتجاجی مظاہرے جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یہ تجویز قوم کے نام ایک نشری تقریر میں رکھی تھی، تاکہ پچھلے ماہ کےجس آئینی فرمان کی رُو سے صدر نے اپنے لئے تقریباً مطلق العنان اختیارات حاصل کر لئے تھے ، اس کی ایک متنازعہ دفعہ کی منسوخی پر بحث کی جائے۔ لیکن ان کے مخالفین نے إسےناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے احتجاجی مظاہرے مزید بھڑکیں گے چنانچہ یہی ہوا۔ تقریر کے بعد مزید تشدّد ہوا جس میں مسٹرمورسی کی پارٹی اخوان المسلمین کا قاہرہ کا صدر دفتر نذر آتش کیا گیا۔ پارٹی کے ایک مشیر کے مطابق پچھلے ماہ سے تشدّدکی وارداتوں میں اب تک پارٹی کی30 عمارتیں جلا دی گئی ہیں۔
مسٹر مرسی نے اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ مادر وطن کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے اور یہ کہ میں اس کے استحکام اور شہریوں کے سلامتی کے لئے انتھک محنت کروں گا۔ جس پر اخبار نے مصری سرگرم کارکنوں کے حوالےسے بتایا ہےکہ یہ اُسی قسم کی تقریر تھی،جو دنیائے عرب کے رواں انقلاب میں شروع میں ان لیڈروں کی ہوتی تھی جن کا سابق مصری صدر حسنی مبارک سمیت بالآخر تختہ اُلٹا گیا تھا۔
ادھر وال سٹریٹ جرنل کے بقول مسٹر مرسی اور اخوان میں اُن کے حامیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ میں مبارک کے سابق وفادار بھرے ہوئے ہیں ، جو ان کی اسلامی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مرسی کی نشری تقریر سے پہلے تشدّد کی جو وارداتیں ہوئی ہیں، ان کا شمار پچھلے دو سال کی بد تریں وارداتوں میں ہوگا، اور صدارتی محل کے قریب صدر کے حامیوں اور اُن کے سیکیولر مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں ، سرکار ی بیان کے مطابق چھ افراد ہلاک اورچار سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون
اس کُشت و خون کے بعد انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون کے مطابق مرسی حکومت کےنو عہدہ داروں نے اُن کی حکومت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مصر کا انقلاب تشدد،۔ اقتدار کی ہوس اور حالات کا غلط اندازہ لگانے سے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ مصری صدر کے اعلیٰ مشیروں کا ایک وفداس ہفتے واشنگٹن میں تھا تاکہ وہ مصر کو دنیائے عرب کے لئے ایک جمہوری نمونے کے طور پر پیش کر سکیں۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ وہاں یہ بُحران اس وجہ سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ کیونکہ پچھلے ماہ مسٹر مورسی نے ایک آمرانہ فرمان جاری کر کے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر قرار دیا تھا۔ اخبار کے خیال میں مسٹر مورسی نے اس بحران کو اور سنگین بنا دیا ، جب انہوں نے اپنے مخالفین کو سابقہ مبارک حکومت کے بچے کھُچے لوگ قرار دیا۔ آمرانہ فرمان واپس لینے سے انکار کیا، اور آئین کے مسوّدے پر 15 دسمبر کو ریفر نڈم کرانے پر اصرار کیا ۔ اخبار کو تسلیم ہے کہ اس مسودے میں صدر کےحد سے زیادہ اختیارات کو ختم کر کے، پارلیمنٹ کو با اختیار بنا کر اور بغیر مقدّمے کے اذیت اور قید کی سزا ممنوع قرار دے کر بعض بنیادی مطالبات پورے کئے گئے ہیں۔ لیکن فوجی جنرلوں کےمبارک دور کے بیشتر اختیارات اور مراعات برقرار رہیں گے۔
امریکہ کے وفاقی انتخابی کمیشن نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اُٹھنے والے خرچ پر جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں، اُ ن کے مطابق دونوں بڑے امید واروں نے مجموعی طور پر دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی ہے۔
روئٹرز
روئٹرز کے بقول ، امتخابی مہم پر اٹھنے والے خرچ کے جو حتمی گوشوارے انتخابی کمیشن میں جمع کرائے گئے ۔ اُس کے مطابق ہار جانے والے ری پبلکن امیدوار مٹ رامنی نے انتخاب کےآخری ہفتوں کے دوران ٓاٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر چندہ جمع کیا تھا۔ چنانچہ رامنی کی مہم پر مجموعی خرچ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ، اسی طرح صدر براک اوباما کی کامیاب انتخابی مہم پر جمع ہونے چندوں اوراخراجات کا میزان بھی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
مجموعی خرچ دو ارب ڈالر سے زیادہ ہو جانا عرصے سے متوقع تھا، کیونکہ اس سال کی انتخابی مہم کی امتیازی بات یہ تھی کہ دونوں جماعتیں بے انداز چندہ جمع کر رہی تھیں، جس کے نتیجے میں میڈیا کے اشتہاروں اور دوسرے ذرائع پر پیسے لُٹائے ۔ دونوں اوباما اور رامنی کی انتخابی مہموں کے لئے صاحب ثروت لوگوں سےچندوں کی بھاری رقوم جمع کرنے والے ٹولے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے ، جنہوں نے کُھلا خرچ کرنے والی اپنی اپنی مالدار پولیٹکل ایکشن کمیٹیوں سے مالی امداد حاصل کی ۔ میڈیا میں کروڑوں ڈالر کی اشتہار بازی ، اورمنتظمین کی فوج ظفر موج پر پیسے لٹائے۔
اس طرح کے چندوں کا آخری ریلہ ؒلاس ویگاس کے ایک جوا خانے کے ارب پتی مالک شیلڈن ایڈل سن کی طرف سے آیا، جنہوں نے تین کروڑتیس لاکھ کی بھاری رقم ، یک مُشت ، رامنی کو دی ، مجموعی طور پر ایڈل سن اور اُن کی اہلیہ مریم نے رامنی اور ری پبلکن امیدواروں کو ساڑھے نو کروڑ کی رقم فراہم کی، مٹ رامنی کی بھاری انتخابی شکست کے باوجود اُن کے مالی امور کے چیر مین نے چندہ جمع کرنے کی دوڑ میں فتح کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ ہر ڈالر رامنی کو منتخب کرانے کی کوشش پر خرچ کیا گیا۔ اور کہا کہ یہ ری پبلکن پارٹی کی تاریخ میں چندہ جمع کرنے کا سب سے زیادہ کامیاب سال تھا۔
اس کے مقابلے میں جو سوپر پیک پولٹکل ایکشن کمیٹی صدر اوباما کی حمایت میں کام کر رہی تھی، اس نے انٹخابی مہم کے آخری ہفتوں کے دوران ڈیڑھ کروڑ ڈالر جمع کر نے کااعلان کیا ۔ اس کمیٹی کو وہائٹ ہاؤس کے بعض سابق مشیر چلا رہے تھے ، اور انتخابی مہم کے دوران جمع ہونے والی سات کروڈاسی لاکھ ڈالر رقم اسی کمیٹی کی کاوش کا نتیجہ تھی۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق مصر کے صدر محمد مرسی کے مخالفین نے مکالمے کے لئے ان کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور یہ عہد دُہرایا ہے کہ وہ اپنے احتجاجی مظاہرے جاری رکھیں گے۔ انہوں نے یہ تجویز قوم کے نام ایک نشری تقریر میں رکھی تھی، تاکہ پچھلے ماہ کےجس آئینی فرمان کی رُو سے صدر نے اپنے لئے تقریباً مطلق العنان اختیارات حاصل کر لئے تھے ، اس کی ایک متنازعہ دفعہ کی منسوخی پر بحث کی جائے۔ لیکن ان کے مخالفین نے إسےناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے احتجاجی مظاہرے مزید بھڑکیں گے چنانچہ یہی ہوا۔ تقریر کے بعد مزید تشدّد ہوا جس میں مسٹرمورسی کی پارٹی اخوان المسلمین کا قاہرہ کا صدر دفتر نذر آتش کیا گیا۔ پارٹی کے ایک مشیر کے مطابق پچھلے ماہ سے تشدّدکی وارداتوں میں اب تک پارٹی کی30 عمارتیں جلا دی گئی ہیں۔
مسٹر مرسی نے اپنی نشری تقریر میں کہا تھا کہ مادر وطن کی حفاظت کرنا میرا فرض ہے اور یہ کہ میں اس کے استحکام اور شہریوں کے سلامتی کے لئے انتھک محنت کروں گا۔ جس پر اخبار نے مصری سرگرم کارکنوں کے حوالےسے بتایا ہےکہ یہ اُسی قسم کی تقریر تھی،جو دنیائے عرب کے رواں انقلاب میں شروع میں ان لیڈروں کی ہوتی تھی جن کا سابق مصری صدر حسنی مبارک سمیت بالآخر تختہ اُلٹا گیا تھا۔
ادھر وال سٹریٹ جرنل کے بقول مسٹر مرسی اور اخوان میں اُن کے حامیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عدلیہ میں مبارک کے سابق وفادار بھرے ہوئے ہیں ، جو ان کی اسلامی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے درپے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مرسی کی نشری تقریر سے پہلے تشدّد کی جو وارداتیں ہوئی ہیں، ان کا شمار پچھلے دو سال کی بد تریں وارداتوں میں ہوگا، اور صدارتی محل کے قریب صدر کے حامیوں اور اُن کے سیکیولر مخالفین کے درمیان جھڑپوں میں ، سرکار ی بیان کے مطابق چھ افراد ہلاک اورچار سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون
اس کُشت و خون کے بعد انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون کے مطابق مرسی حکومت کےنو عہدہ داروں نے اُن کی حکومت سے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مصر کا انقلاب تشدد،۔ اقتدار کی ہوس اور حالات کا غلط اندازہ لگانے سے کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ مصری صدر کے اعلیٰ مشیروں کا ایک وفداس ہفتے واشنگٹن میں تھا تاکہ وہ مصر کو دنیائے عرب کے لئے ایک جمہوری نمونے کے طور پر پیش کر سکیں۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ وہاں یہ بُحران اس وجہ سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے ۔ کیونکہ پچھلے ماہ مسٹر مورسی نے ایک آمرانہ فرمان جاری کر کے اپنے آپ کو قانون سے بالاتر قرار دیا تھا۔ اخبار کے خیال میں مسٹر مورسی نے اس بحران کو اور سنگین بنا دیا ، جب انہوں نے اپنے مخالفین کو سابقہ مبارک حکومت کے بچے کھُچے لوگ قرار دیا۔ آمرانہ فرمان واپس لینے سے انکار کیا، اور آئین کے مسوّدے پر 15 دسمبر کو ریفر نڈم کرانے پر اصرار کیا ۔ اخبار کو تسلیم ہے کہ اس مسودے میں صدر کےحد سے زیادہ اختیارات کو ختم کر کے، پارلیمنٹ کو با اختیار بنا کر اور بغیر مقدّمے کے اذیت اور قید کی سزا ممنوع قرار دے کر بعض بنیادی مطالبات پورے کئے گئے ہیں۔ لیکن فوجی جنرلوں کےمبارک دور کے بیشتر اختیارات اور مراعات برقرار رہیں گے۔
امریکہ کے وفاقی انتخابی کمیشن نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اُٹھنے والے خرچ پر جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں، اُ ن کے مطابق دونوں بڑے امید واروں نے مجموعی طور پر دو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کی ہے۔
روئٹرز
روئٹرز کے بقول ، امتخابی مہم پر اٹھنے والے خرچ کے جو حتمی گوشوارے انتخابی کمیشن میں جمع کرائے گئے ۔ اُس کے مطابق ہار جانے والے ری پبلکن امیدوار مٹ رامنی نے انتخاب کےآخری ہفتوں کے دوران ٓاٹھ کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر چندہ جمع کیا تھا۔ چنانچہ رامنی کی مہم پر مجموعی خرچ ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ، اسی طرح صدر براک اوباما کی کامیاب انتخابی مہم پر جمع ہونے چندوں اوراخراجات کا میزان بھی ایک ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔
مجموعی خرچ دو ارب ڈالر سے زیادہ ہو جانا عرصے سے متوقع تھا، کیونکہ اس سال کی انتخابی مہم کی امتیازی بات یہ تھی کہ دونوں جماعتیں بے انداز چندہ جمع کر رہی تھیں، جس کے نتیجے میں میڈیا کے اشتہاروں اور دوسرے ذرائع پر پیسے لُٹائے ۔ دونوں اوباما اور رامنی کی انتخابی مہموں کے لئے صاحب ثروت لوگوں سےچندوں کی بھاری رقوم جمع کرنے والے ٹولے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے ، جنہوں نے کُھلا خرچ کرنے والی اپنی اپنی مالدار پولیٹکل ایکشن کمیٹیوں سے مالی امداد حاصل کی ۔ میڈیا میں کروڑوں ڈالر کی اشتہار بازی ، اورمنتظمین کی فوج ظفر موج پر پیسے لٹائے۔
اس طرح کے چندوں کا آخری ریلہ ؒلاس ویگاس کے ایک جوا خانے کے ارب پتی مالک شیلڈن ایڈل سن کی طرف سے آیا، جنہوں نے تین کروڑتیس لاکھ کی بھاری رقم ، یک مُشت ، رامنی کو دی ، مجموعی طور پر ایڈل سن اور اُن کی اہلیہ مریم نے رامنی اور ری پبلکن امیدواروں کو ساڑھے نو کروڑ کی رقم فراہم کی، مٹ رامنی کی بھاری انتخابی شکست کے باوجود اُن کے مالی امور کے چیر مین نے چندہ جمع کرنے کی دوڑ میں فتح کا اعلان کیا۔ اور کہا کہ ہر ڈالر رامنی کو منتخب کرانے کی کوشش پر خرچ کیا گیا۔ اور کہا کہ یہ ری پبلکن پارٹی کی تاریخ میں چندہ جمع کرنے کا سب سے زیادہ کامیاب سال تھا۔
اس کے مقابلے میں جو سوپر پیک پولٹکل ایکشن کمیٹی صدر اوباما کی حمایت میں کام کر رہی تھی، اس نے انٹخابی مہم کے آخری ہفتوں کے دوران ڈیڑھ کروڑ ڈالر جمع کر نے کااعلان کیا ۔ اس کمیٹی کو وہائٹ ہاؤس کے بعض سابق مشیر چلا رہے تھے ، اور انتخابی مہم کے دوران جمع ہونے والی سات کروڈاسی لاکھ ڈالر رقم اسی کمیٹی کی کاوش کا نتیجہ تھی۔