واشنگٹن —
'وکی لیکس' نے مزید 17 لاکھ سے زائد امریکی سفارتی دستاویزات اور خفیہ اداروں کی رپورٹیں انٹرنیٹ پر جاری کردی ہیں۔
امریکہ کی خفیہ سرکاری دستاویزات منظرِ عام پر لانے والی ویب سائٹ کے بانی جولین اسانج کے مطابق پیر کو جو دستاویزات جاری کی گئی ہیں ان میں 1973 سے 1976ء کے درمیانی عرصے کے سفارتی کیبلز، انٹیلی جنس رپورٹیں اور اراکینِ کانگریس کی خط و کتابت شامل ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق جاری کی جانے والی رپورٹوں میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر کے تحریر کردہ اور انہیں ملنے والے مراسلے بھی شامل ہیں۔
جاری کی جانے والی دستاویزات میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے بارے میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور امریکہ کے دیگر محکموں کی رپورٹیں موجود ہیں۔
جولین اسانج کےمطابق 'وکی لیکس' کا عملہ امریکہ کے 'نیشنل آرکائیو' میں موجود ان دستاویزات کی گزشتہ ایک برس سے چھان پھٹک کر رہا تھا تاکہ انہیں انٹرنیٹ پر 'سرچ ایبل' شکل میں جاری کیا جاسکے۔
اسانج گزشتہ سال جون سے لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم ہیں جہاں انہوں نے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔
اسانج نے ایک برطانوی عدالت کی جانب سے انہیں سوئیڈن کے حوالے کرنے کے فیصلے کے بعد اس لاطینی امریکی ملک کے سفارت خانے میں پناہ حاصل کی تھی۔
'وکی لیکس' کے بانی دو خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے الزام میں سوئیڈن کے حکام کو مطلوب ہیں لیکن وہ ان مقدمات کو اپنے خلاف انتقامی کاروائی قرار دیتے ہیں۔
امریکہ کی خفیہ سرکاری دستاویزات منظرِ عام پر لانے والی ویب سائٹ کے بانی جولین اسانج کے مطابق پیر کو جو دستاویزات جاری کی گئی ہیں ان میں 1973 سے 1976ء کے درمیانی عرصے کے سفارتی کیبلز، انٹیلی جنس رپورٹیں اور اراکینِ کانگریس کی خط و کتابت شامل ہیں۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق جاری کی جانے والی رپورٹوں میں اس وقت کے امریکی وزیرِ خارجہ ہینری کسنجر کے تحریر کردہ اور انہیں ملنے والے مراسلے بھی شامل ہیں۔
جاری کی جانے والی دستاویزات میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک کے بارے میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور امریکہ کے دیگر محکموں کی رپورٹیں موجود ہیں۔
جولین اسانج کےمطابق 'وکی لیکس' کا عملہ امریکہ کے 'نیشنل آرکائیو' میں موجود ان دستاویزات کی گزشتہ ایک برس سے چھان پھٹک کر رہا تھا تاکہ انہیں انٹرنیٹ پر 'سرچ ایبل' شکل میں جاری کیا جاسکے۔
اسانج گزشتہ سال جون سے لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں مقیم ہیں جہاں انہوں نے سیاسی پناہ حاصل کر رکھی ہے۔
اسانج نے ایک برطانوی عدالت کی جانب سے انہیں سوئیڈن کے حوالے کرنے کے فیصلے کے بعد اس لاطینی امریکی ملک کے سفارت خانے میں پناہ حاصل کی تھی۔
'وکی لیکس' کے بانی دو خواتین کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے الزام میں سوئیڈن کے حکام کو مطلوب ہیں لیکن وہ ان مقدمات کو اپنے خلاف انتقامی کاروائی قرار دیتے ہیں۔