پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے 28 ستمبر کو امریکی اخبار 'نیویارک ٹائمز' میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان غربت، تعلیم اور عورتوں کے حقوق کی عالمی ریٹنگز میں سب سے نیچے ہے اور دنیا کا دوسرا ایسا ملک ہے جہاں پانچ ملین سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔
ہم نے واشنگٹن میں کچھ امریکی اور پاکستانی تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پاکستان واقعتاً سیاسی بیداری کی راہ پر چل نکلا ہے یا حالیہ بے چینی کی لہر جمہوریت کی بساط ایک بار پھر لپیٹنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے؟
لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائینسز (لمز) کے سکول آف ہیومینیٹیز اینڈ سوشل سائینسز کے ڈین انجم الطاف کہتے ہیں کہ پاکستان میں حالات بد سے بد تر ہورہے ہیں۔ ان حالات میں ایسی احتجاجی تحریکیں ظاہر ہوتی رہیں گی اور کہیں نہ کہیں جڑ کر کوئی بڑی چیز بن سکتی ہیں۔ وہ بڑی چیز
پاکستان میں کسی بھی شہری سے پوچھیں کہ آپ کا سیاستدانوں کے متعلق کیا خیال ہے، تو 99 فیصد یہی جواب دیں گے کہ سب چور ہیں۔ انجم الطاف، ڈین لمز
کیا ہوگی؟ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ آپ پاکستان میں کسی بھی شہری سے پوچھیں کہ آپ کا سیاستدانوں کے متعلق کیا خیال ہے، تو آپ کو نناوے فیصد یہی جواب دیں گے کہ وہ سب چور ہیں۔ جب انہیں بجلی نہیں مل رہی، پانی نہیں مل رہا، انصاف نہیں مل رہا۔ تو لوگوں کو بہت سی شکایات ہیں، وہ دل برداشتہ ہیں، اس لئے کہیں نہ کہیں بھڑاس تو نکالیں گے۔ اس کے لئے جو بھی موقع انہیں ملے گا اس میں شامل ہونگے۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک ووڈرو ولسن سینٹر کے تجزیہ کار مائیکل کوگل مین حالیہ سیاسی تحریک کے زور پکڑنے کی ذمہ داری پاکستانی میڈیا پر عائد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو اپنے روز مرہ مسائل کی فکر ہے، اپنے خاندانوں کا پیٹ بھرنے کی فکر ہے۔ یقیناً آپ کو عمران خان اور طاہر القادری کی حمایت کی کہانیاں بھی سننے کو ملتی ہیں لیکن میرے خیال میں پاکستان میں اکثر لوگ اب اس سے تھک چکے ہیں‘‘۔
پاکستان میں زیادہ تر لوگوں کو اپنے روز مرہ مسائل کی فکر ہے،اکثر لوگ اب روز روز کے احتجاج سے تنگ آ چکے ہیں، مائیکل کوگل مین
انجم الطاف کی رائے میں طاہر القادری کی احتجاجی تحریک کے پیچھے کون ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’آپ خود سوچیں کہ ایک آدمی کینیڈا کا شہری ہے، وہ ایک دن اٹھ کر آجاتا ہے کہ میں انقلاب لاؤں گا۔ اگر آپ اس بات کو قبول کر سکتی ہیں، تو ٹھیک ہے۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے کوئی شخص اچانک آ کر کہہ سکتا ہے کہ میں انقلاب لاؤں گا‘‘۔
لیکن واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور طالبان ریوائیول نام کی کتاب کے مصنف حسن عباس اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں طاہر القادری صاحب کو فقط یہ کہہ دینا کہ کینیڈا سے ایک مولوی آیا اور وہ یہ کر رہا ہے، کچھ درست نہیں۔ اس لئے کہ طاہر القادری صاحب پاکستان کے اندر ضیاء الحق کے زمانے سے ہیں۔
’’ مجھے یاد ہے ہم ٹی وی پر ان کے لیکچر سنتے تھے اور قطع نظر اس سے کہ کوئی کسی بھی فرقے یا گروہ سے تعلق رکھتا ہے، کوئی اہل تشیع ہے، کوئی اہل سنت ہے کوئی وہابی ہے، ان کی تقاریر سب کو متاثر کرتی تھیں کیونکہ ریشنل تھیں، ان میں بہت جذبہ تھا۔ اس کے بعد انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
قادری صاحب کو ماضی کے حوالے سے ایک قابل اعتبار پارلیمنٹیرین ماننا پڑے گا۔ حسن عباس
’’اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے لیکن بہرحال وہ سن 2000 میں رکن پارلیمان بنے۔ گویا قادری صاحب کو آپ کو ماضی کے حوالے سے ایک قابل اعتبار پارلیمنٹیرین ماننا پڑے گا۔ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں بہت سے مدرسے ایسے ہیں جو بہت روایتی ہیں، جہاں روٹین میں مذہب کی تبلیغ کی جاتی ہے، کچھ میں تعلیم و تربیت ایسی ہونے لگی جو لوگوں کو مذہب کی راہ سے ہٹا کے دہشت گردی کی راہ پر چلانے لگی، یا اگر دہشت گرد نہیں بنائے تو انہوں نے ایسا ماحول پیدا کیا جس سے فرقہ واریت پاکستان میں پیدا ہوئی۔ طاہر القادری کی جو منہاج القرآن ہے، وہ قدرے پروگریسو قسم کے مراکز تھے۔ وہ روایتی پاکستانی مدرسوں کی طرح نہیں تھے۔ یہ ہمیں کریڈٹ دینا ہوگا، ان کی بہت بڑی سپورٹ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے سیاسی عزائم تھے، لیکن سیاست میں آنا ہر کسی کا حق ہے، تو قادری صاحب کو بھی ہمیں سنجیدگی سے لینا چاہئے‘‘۔
حسن عباس کہتے ہیں کہ طاہر القادری کے احتجاج کی مخالفت کی ایک وجہ پاکستان میں سنی مسلک کے ماننے والوں میں دیو بندی اور بریلوی فرقوں کے درمیان مدرسوں کی آمدنی پر جاری چپقلش بھی ہے۔
طاہر القادری کی مخالفت کی ایک وجہ پاکستان میں سنی مسلک کے ماننے والوں میں دیو بندی اور بریلوی فرقوں کے درمیان مدرسوں کی آمدنی پر جاری چپقلش بھی ہے۔ حسن عباس
’’اہل سنت میں دو مکتبہ فکر ہیں، دیوبندی اور بریلوی ان کے ذیلی فرقے ہیں۔ یہ دونوں ہندوستان کے دو بڑے مدرسوں سے منسلک تھے ۔ پاکستان میں 1980 کی دہائی کے بعد سارے پیسے، ساری توجہ دیوبندی گروپ پر رہی، اس لئے کہ ان کے بعض گروپس زیادہ متاثر ہو گئے، یا ان کے ساتھ زیادہ لوگ سیاسی اور مذہبی طور پر منسلک تھے۔ وہی زیادہ تر افغان جہاد پر اثر انداز ہوئے۔ یعنی خیبر پختون خواہ ،اور کشمیر میں جو مجاہدین تھے، وہ زیادہ تر دیوبندی تھے، یعنی زیادہ پیسہ وہاں گیا۔ حالانکہ بریلویوں کی تعداد زیادہ تھی۔ طاہرالقادری صاحب کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے، بریلوی مسلک وہ ہے جو ویسے تو اہل سنت ہی ہیں لیکن وہ صوفیا کی تعلیمات پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔ صوفیا کی درگاہوں اور مزارات پر جاتے ہیں۔ یہ چیز بھی اس مخاصمت کے پس پردہ ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ فضل الرحمن صاحب اور جمیعت العلمائے اسلام کے سب لوگ کیوں اتنے مخالف ہیں طاہرالقادری کے۔ قادری صاحب کی بھی داڑھی ہے، قران شریف وہ بھی پڑھتے ہیں۔ اسلام کی بات کرتے ہیں، ٹوپی بھی ان سے ملتی جلتی پہنتے ہیں۔ تو ایسا کیا قصور کیا ہے طاہرالقادری نے۔ یہ وہ بریلوی اور دیو بندی کی چپقلش ہے ، جو مدرسوں کے پیسوں سے منسلک ہے۔ جو بعض مجاہدین گروہوں کے ساتھ منسلک ہے، وہ بھی ایک بات ہے، جو اس ساری بات کے پیچھے پیچھے چل رہی ہے‘‘۔
مائیکل کوگل مین اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ موجودہ سیاسی احتجاج کو اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر کی حمایت حاصل رہی، لیکن ان کا کہنا ہے کہ فوج غالبا ایک ادارے کے طور پراس کے پیچھے نہیں تھی۔
مائیکل کوگل مین کے الفاظ میں، جب ہم ’’سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو کوئی ایک چیز نہیں ہوتی۔ کئی قسم کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹس ہیں۔ شائد کچھ افراد۔ ممکن ہے کوئی ریٹائرڈ انٹیلیجنس آفیسر ہوں۔ جو کسی سطح پر دھرنے والوں کو رہنمائی فراہم کر رہے تھے۔
شائد کہیں نہ کہیں کچھ عناصر ملوث تھے لیکن، شائد فوج نے ایک ادارے کے طور پر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کی۔ مائیکل کوگل مین
خاص طور پر وہ دن، جب احتجاج پُرتشدد صورت اختیار کر گئے۔ میں کہوں گا کہ شائد اس وقت سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں جو ہارڈ لائن عناصر تھے، انہوں نے احتجاجی لیڈروں سے کہا کہ اب حکومت پر دباؤ بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ لیکن بعد میں دفاعی اسٹیبلشمنٹ میں دوبارہ اعتدال پسند سوچ حاوی ہو گئی۔ تو شائد کہیں نہ کہیں کچھ عناصر ملوث تھے لیکن شائد فوج نے ایک ادارے کے طور پر حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن حسن عباس اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ ممکن ہے کئی فوجی اور ان کے اہل خانہ عمران خان کو پسند کرتے ہوں، لیکن یہ سمجھنا کہ یہ سارا کھیل آئی ایس آئی کا کھیلا ہوا ہے، یا پہلے سے سوچا سمجھا ہے، میں نےبحیثیت پولیٹیکل سائیٹسٹ ایسی کوئی شہادت نہیں دیکھی۔
’’یقینا انہیں کچھ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ بہت سی شہادتیں بھی ہیں کہ جہاں فوج نے یا کسی اور نے، انہیں سختی کی نگاہ سے دیکھنا تھا، انہوں نے دوسری طرف دیکھا۔ اور یہ سوال یقیناً ہے کہ پاکستان میں کوئی بلوچی آجائے ایسی کوئی مومنٹ چلانے یا خیبر پختون خواہ سے، وزیرستان سے آئی ڈی پیز آجائیں، تو انہیں اسلام آباد کے ریڈ زون میں کوئی گھسنے دے گا؟ کبھی نہیں۔ تو بہت سے لوگ، جن میں فوج بھی شامل ہوگی، یہ چاہتے تھے کہ وہ آگے آئیں، لیکن یہ کہنا کہ وہ فوج کے مکمل کنٹرول میں ہیں، یہ بالکل غلط ہوگا میرے خیال میں‘‘۔
انجم الطاف کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو حکمران یا نظام بدلنے سے کچھ نہیں ملے گا، انہیں ایسی حکومت چاہئے جو اپنے اقدامات کے لئے جواب دہ ہو اور اپنی ذمہ داریاں ایمانداری سے ادا کرے۔
انجم الطاف کے بقول،’’پاکستان میں دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک تو
پاکستان میں دو چیزوں کی ضرورت ہے، ایک تواصلاحات اور ایک عوام کو جواب دہ حکومت۔ انجم الطاف، ڈین لمز
اصلاحات اور دوسرے جواب دہ حکومت۔ اگر کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو اس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ جسے ہم انگریزی میں اکاؤنٹیبلٹی کہتے ہیں ،وہ بہت ضروری ہے۔ اکاونٹیبلٹی نہیں ہے۔ عام لوگوں کے جو مطالبے ہیں، جو ان کی ضروریات ہیں، ان پر کوئی شنوائی نہیں ہے۔ جب تک وہ نہیں ہوگی، آپ ایک شخص بدل کر دوسرا لے آئیں، نظام وہیں کا وہیں رہے گا‘‘۔
انجم الطاف کی رائے میں، ایک جمہوری نظام کیسے چلتا ہے، عوام میں اس کا شعور پیدا ہونا ضروری ہے، کہ جو آپ کے نمائندے ہیں، ان کی کیا ذمہ داری ہے؟ وہ اس ذمہ داری کو کیسے پورا کرتے ہیں؟ اگر پورا نہ کریں تو کیا ہونا چاہئے؟ یہ ایک سیاسی عمل ہے، جس میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔