کیا انتہا پسند نظریات کا تعلق کسی خاص مذہب سے جوڑا جا سکتا ہے؟ کیا انتہا پسند دہشت گرد کا کوئی مذہب بھی ہوتا ہے؟ کیاجنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ، اور مغربی افریقی ملکوں میں انتہا پسندی کی تمام شکلوں کے محرکات ایک سے ہیں؟ اور کیا ایسا کوئی حل موجود ہے، جسے استعمال کرکے دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنانا اب بھی ممکن ہو؟
اس موضوع پر اردو وی او اے کے پروگرام، ’انڈیپنڈنس ایونیو‘ میں بات کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ سائینسز میں سوشل سائینس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ہما بقائی نے کہا کہ انتہا پسند تنظیمیں جن علاقوں سے نئی بھرتیاں کرتی ہیں وہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بیان کیا جاتا ہے۔
بقول اُن کے، صدر اوباما نے پر تشدد انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے بلائی گئی کانفرنس میں اسلام اور انتہا پسند نظریات کو الگ الگ رکھنے کی جو بات کی، وہ بےحد مناسب تھی۔ اگر اوباما کوئی مختلف بیانیہ استعمال کرتے تو اس سے انتہا پسندی کا پرچار کرنے والوں کو مزید ایندھن فراہم ہوسکتا تھا۔
ہما بقائی کہتی ہیں کہ ممکن ہے یورپ میں انتہا پسندی کے محرکات وہی ہوں جو پاکستان میں ہیں۔ لیکن، تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے درمیان جو چیز مشترک ہے وہ ہے طاقت اور اختیار حاصل کرنے کی خواہش۔۔ٹی ٹی پی نے پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں ریاست کی رٹ نہیں تھی، قبضے کی کوشش کی۔ اور گو کہ فوجی کارروائی کے بعد ریاست کی رٹ بحال ہوگئی، اس کے نتائج کا پاکستان کو اب تک سامنا ہے۔ انہوں نے کہا داعش کے حوالے سے پاکستان میں وال چاکنگ ہوئی، لوگ پکڑے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ باقاعدہ طور پر کوئی وابستگی نہ ہو، لیکن مشرق وسطیٰ کے انتہا پسندوں کی سوچ سے یکجہتی کا احساس پاکستان میں یقیناً موجود ہے۔
بقول اُن کے، انتہا پسندی کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ دنیا میں کہیں بھی انصاف پر مبنی معاشرہ قائم نہیں ہو سکا اور وہ سب جو کہیں نہ کہیں انصاف کے نظام سے باہر رہ گئے، وہ انتہا پسند نظریات کے پھیلاؤ کا سبب بن رہے ہیں۔ پاکستان میں جو فرقہ ورانہ انتہا پسندی پھیل رہی ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے، ہمیں ماننا پڑے گا کہ بڑی غلطیاں ہوئی ہیں۔ مگر وجوہات کو نہ کوئی دیکھنے اور نہ دور کرنے کو تیار ہے۔
ہما بقائی کے الفاظ میں: ’جب فلسطینی بچوں کی لاشیں سوشل میڈیا پر عام کی جاتی ہیں، تو ہمارے ملکوں میں روشن خیالوں کے پاس پیش کرنے کے لئے کوئی جوابی دلیل نہیں ہوتی‘۔
بفلو اسٹیٹ یونیورسٹی میں انٹر کلچرل کمیونیکیشن کے پروفیسر فیضان حق نے کہا کہ دنیا ہمیشہ سے اچھی اور بری قوتوں کے درمیان تقسیم رہی ہے۔ انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے عالمی رہنماوٴں کے پاس سب کو ساتھ لے کر چلنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہو یا عراق، شام اور یورپ۔۔ انتہا پسند سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی پہنچا رہے ہیں۔ دوسری طرف، مسلمان سکالر اور علما، جن کا رابطہ نئی نسل کے ساتھ ہے، اس بات پر توجہ نہیں دے رہے کہ نوجوان ان کی گفتگو سے متاثر کیوں نہیں ہو رہے؟ انتہا پسندوں کے نظریات سے کیوں متاثر ہوجاتے ہیں، جو ہزاروں میل دور سے انٹرنیٹ کے ذریعے ان کے خیالات پر اثر انداز ہوتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ اجتماعی یادداشت کو کھنگالیں تو اقبال نے صداقت اور امامت کے اسباق پڑھنے کے بعد شجاعت کی بات کی تھی۔ ’لیکن، مسلمان نوجوان ، جو اپنے ماضی سے کٹا ہوا ہے، اسے سب سے پہلے جہاد کی روایت سے آگاہی مل رہی ہے ، اور اس پراپیگنڈے کو پھیلانے والوں کے پاس اتنے وسائل اور انداز بیان میں ایسا اثر ہے کہ دوسری سوچ کے حامل افراد کی یا تو آواز نہیں پہنچتی ، یا ان کے بیانئے میں ایسی اثر پذیری نہیں ہے‘۔
وجہ، فیضان حق کے خیال میں یہ ہے کہ ’لبرل لوگوں نے اسلام کے اندر روشن خیالی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی‘، جبکہ مغربی لبرل ازم کی جڑیں انقلاب فرانس اور کیتھولک چرچ کی تاریخ میں ہیں۔
فیضان حق کے بقول،’ہمارے لبرل ازم کے پاس کچھ اور راستے بھی ہیں۔ لیکن، مسلمان سکالرز یہ بات اتنی طاقت سے کر ہی نہیں رہے کہ داعش اور اس جیسے انتہا پسند گروہ کیسے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ تاہم، مغرب کو اندازہ ہوچکا ہے کہ مسئلہ اب حل کے لئے کسی تاخیر کا متحمل نہیں ہو سکتا اور اس بارے میں بات چیت کا آغاز ہونا حل کی طرف پہلا قدم ہے‘۔
برسلز سے پروگرام میں شریک سینئیر صحافی، خالد حمید فاروقی کا کہنا تھا کہ سوال تہذیبی تصادم کا نہیں ہے۔ مغربی ملک چونکہ طاقتور ہیں، وہاں رہنے والے تمام لوگوں کے پاس ایک سے تعلیمی، فلاحی اور معاشی مواقعے موجود ہے۔ کولاشی برادرز، جنہوں فرانس میں طنزیہ جریدے کے دفتر پر فائرنگ کی، وہ بھی فرانس کے تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے۔۔۔لیکن یہ جو بات ہے کہ ہماری بات لوگ نہیں سن رہے اور دوسری قسم کی بات سنی جا رہی ہے۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے جا رہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ، پاکستان میں جو لوگ مغربی تعلیمی اداروں سے پڑھتے ہیں ، انگریزی بولتے ہیں وہ بھی روشن خیالی کی بات نہیں کرتے۔ وجہ یہ ہے کہ لبرل سوچ کے حامل افراد بھی اپنے نظریات سے کوئی وابستگی نہیں رکھتے اور نہ ہی اس کے لئے ویسی محنت کرنے کو تیار ہیں، جیسی محنت دائیں بازو یا فاشسٹ ذہنیت کے لوگ کر رہے ہیں، اور جس کے لئے ماحول سازگار بھی ہے۔
تاہم، ان کے بقول، انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے صدر اوباما کی باتیں سننے کی حد تک اچھی ہیں۔ لیکن صدر اوباما نے یہ نہیں بتایا کہ آخر انتہاپسندوں کا بیانیہ اتنی شدت سے کیسے اثر انداز ہو رہا ہے؟ انتہا پسندوں کو بعض ملکوں میں پھلنے پھولنے کا سازگار ماحول یقیناً مل رہا ہوگا۔ لیکن، ان کے وسائل امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جیسے طاقتور ملکوں سے زیادہ نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ،فرانس میں، جہاں سیکیورٹی پر اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، وہاں کیسے دو افراد پورے ملک کو دہشت میں مبتلا کر دیتے ہیں؟ لوگوں کی سمجھ میں یہ کیوں نہیں آرہا کہ جو کچھ مشرق وسطی میں ہوتا ہے، اس سے ہر مسلمان کھولا ہوا ہے۔ غصے میں ہے۔ جب وہ دیکھتے ہیں کہ لڑاکا طیارے غزہ میں بمباری کرکے کئی کئی سو افراد کو ہلاک کر رہے ہیں اور امریکہ یا یورپی یونین کا ایک بیان بھی سامنے نہیں آرہا۔ تو غصہ، ناراضگی اور شکایت پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس پر مستزاد انٹر نیٹ نے ناراض لوگوں کو ناراض لوگوں تک پہنچنے میں آسانی پیدا کر دی ہے۔
خالد حمیدفاروقی کا کہنا تھا کہ برسلز شہر میں پچیس فیصد مسمان رہتے ہیں ۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سے دہشت گردی یورپ میں پھیل رہی ہے۔ پانچ ہزار افراد یورپ سے شام گئے۔۔کیونکہ بین الاقوامی ایجنڈا یہ تھا کہ بشارالاسد کو گرایا جائے۔
لیکن، بقول اُن کے، ’وہ جہادی تربیت حاصل کرکے واپس آگئے اور پورے یورپ کا درد سر بن گئے‘۔