منگل سے دنیا بھر میں عورتوں کے خلاف تشدد کےخاتمے کی16روزہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا ہے، جس کا مقصد لوگوں میں عورتوں پر تشدد کے بارے میں اور اس تشدد کی وجہ سے ان کے خاندان اور معاشرے پر منفی اثرات کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔
عورتوں پر تشدد کی روک تھام کا عالمی دن ہر سال25 نومبر کو منایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پچیس نومبر سے دس دسمبر (انسانی حقوق)کے عالمی دن تک عورتوں اور لڑکیوں پر تشدد کےخاتمے کے لیے ایک سولہ روزہ مہم چلائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کےخلاف تشدد انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے پر ایک مخصوص ہدف شامل ہے۔
اس سال اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی مہم 'یونائٹ ٹو اینڈ وائلینس اگینسٹ وومن'کی طرف سےلوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تشدد کے بغیر ایک روشن مستقبل کی علامت کے طور پر دنیا بھر میں اہم عمارتوں ،یادگاروں، سڑکوں ،اسکولوں اور دیگر اہم مقامات کو اقوام متحدہ کے نامزد اورنج رنگ سے روشن کریں۔
عورتوں کےخلاف تشدد کےخاتمے کی مہم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے برطانیہ کےشمالی شہر شیفیلڈ میں خواتین کےحقوق کے لیے کام کرنے والی طلبہ تنظیموں کی طرف سے 'ری کلیم دا نائٹ' کے نام سے شہر میں ایک احتجاجی مارچ کیا گیا۔
یہ مارچ 25 نومبر کی رات کو شہر کے قدیم چرچ شیفیلڈ کیتھیڈرل کے باہر سے شروع کیا گیا جو بعد میں ایک عوامی جلوس کی شکل میں شہر کی اہم سڑکوں اور گلیوں سے گزرتا ہوا شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک کیفے میں جا کر اختتام پذیر ہوا جہاں مقررین نے سولہ روزہ مہم کی اہمیت پر بات کی ۔
شیفیلڈ یونیورسٹی اور شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی طالبات کی طرف سے نکالے جانے والےجلوس میں تمام پس منظر سے تعلق رکھنے والی عورتوں نے شرکت کی جنھوں نے ہاتھوں میں احتجاجی پلے کارڈز اور بینر اٹھارکھے تھے اور وہ شہر کی سڑکوں پر خواتین کو ہراساں اور تشدد کے بغیر چلنے کا حق واپس دلوانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔
طالبات ڈرم اور ڈھول پیٹ کر شہر کی گلیوں میں چیخ چیخ کر یہ منادی کر رہی تھیں کہ 'اس کی سڑک ہماری بھی ہے ' اور ہم عورتیں متحد ہیں، ہم رات میں سڑکوں پر چلنےکا حق واپس مانگتے ہیں''۔
شیفیلڈ یونیورسٹی کی طالبات کی یونین کی صدر سرینا نے اپنی تقریر میں کہا کہ ان دنوں اجنبیوں کے ساتھ نفرت اور اسلام فوبیا پر مبنی روئیے عام ہوتےجارہے ہیں جبکہ عورتوں کےخلاف تشدد کا رویہ بھی زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے اور آج عورتوں کےخلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن پر ہم نے عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والی بدسلوکیوں کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرایا ہے.
انھوں نے کہا کہ عورتوں کے ساتھ اس بدسلوکی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انھیں پر امن اور ترقی یافتہ معاشرے میں بھی دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاج کا مقصد اس شہر کے لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ جب بھی سڑک پر کسی عورت یا لڑکی کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے تو یہ اس کا قصور نہیں ہوتا ہےکیونکہ عورتوں کو اکثر دفتر یا اسکول اور یونیورسٹی کے بعد رات میں گھر جانے کے لیے سڑکوں پر چلنا پڑتا ہے اور آج ہم اس مہم کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ عورتیں بھی دوسروں کی طرح ہیں ۔ انھیں بھی شہر میں خود کو محفوظ محسوس کرنےکا حق ہے اور اس طرح انھیں ہراساں کئے جانے کی وجہ سے خواتین کی آزادی کو محدود نہیں کیا جاسکتا ہے۔
شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی کی خواتین طلبہ یونین کی صدر ریچا نے کہا کہ ترقی پسند معاشرے میں بھی عورتوں کو جسمانی ،جنسی یا ذہنی تشدد کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ خواتین کےخلاف تشدد کے خاتمے کی سولہ روزہ مہم یہ بتاتی ہے کہ ہمیں کیوں مزید آگے بڑھنا ہےکیونکہ قیادت اور حوصلے کی ایسی تحریکیں کمزور خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہی ہیں۔
خواتین کے جلوس میں شامل شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک طالب علم الیکس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان دنوں یونیورسٹی طالبات کے ساتھ اس طرح کے واقعات بڑھ گئے ہیںجس کا عام طور پر رات کے وقت سڑک پر چلنے والی عورت کو ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے جبکہ یہ سچ نہیں ہوتا ہے ہم اس رویہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ شیفیلڈ یونیورسٹی کی طرف سے طالبات کے لیے 'ڈونٹ واک ہوم الون' کے نام سے ایک مہم شروع کی گئی ہے اور خواتین کے تحفظ کےحوالے سے بس اشتہارات میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ یورک شائر پولیس کے تعاون سے یونیورسٹی کے آس پاس کے علاقوں میں پیدل چلنے والی طالبات کو ریپ الارم دیا گیا ہے۔