رسائی کے لنکس

کیا موجودہ پاکستان ہی جناح کا خواب تھا؟


قائداعظم 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ایک عوالی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
قائداعظم 21 مارچ 1948 کو ڈھاکہ میں ایک عوالی جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

مشہور برطانوی صحافی بیورلے نیکلز نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ورڈِکٹ آن انڈیا‘‘ میں محمد علی جناح کو ہندوستان میں اہم ترین شخصیت قرار دیا تھا۔ اپنے اس بیان کی دلیل میں اُنہوں نے لکھا ہے کہ جناح آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے اور اگر وہ نہ ہوتے تو ہندوستان مکمل طور پر قتل و غارت اور انارکی کی بھینٹ چڑ جاتا۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ اگر گاندھی موجود نہ رہتے تو اُن کے بعد نہرو، راج گوپال اچاریہ، پٹیل اور متعدد دیگر رہنما موجود تھے جو ہندوؤں کی قیادت سنبھال سکتے تھے۔ تاہم اگر جناح نہ رہتے تو آل انڈیا مسلم لیگ میں کوئی بھی قابل ذکر رہنما نہیں تھا جو مسلمانوں کی باگ دوڑ سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ جناح اس بات کے ضامن تھے کہ ہندوستان میں انارکی نہ پھیلے اور ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کا مقصد پر امن طریقے سے حل ہو۔

1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی طرف سے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد جناح پر الزامات لگنے لگے کہ وہ ہندوؤں کے خلاف منافرت کے جذبات بھڑکا رہے ہیں۔ اس کے دو برس بعد اُنہوں نے الہ آباد میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ وہ ہندو برادری کے خلاف کسی قسم کی نفرت میں یقین نہیں رکھتے۔ اُنہوں نے کہا ، ’’میں زندہ رہوں یا نہ رہوں، ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب نہ صرف مسلمان بلکہ یہ عظیم ہندو برادری بھی میرے اس اقدام کی قدر کرے گی۔‘‘

تاہم جو پاکستان 1947 میں وجود میں آیا، وہ اُن کے اصل خواب کا محض ایک حصہ ہی تھا۔ آخری برسوں میں اُن کی جان لیوا بیماری کے دوران کانگریس کے شدید دباؤ اور وائس رائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی چالاکیوں کے پس منظر میں وہ اُس پاکستان کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہوگئے جو وہ اس سے قبل دو بار مسترد کر چکے تھے۔ وہ ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم نہ ہو۔ اگر ایسا ممکن ہو جاتا اور وہ قیام پاکستان کے بعد کچھ برسوں تک اس نوزائدہ ملک کی راہنمائی کیلئے زندہ رہتے تو شاید آج کا پاکستان اُس پاکستان سے یکسر مختلف ہوتا جو اُنہوں نے 1947 میں قبول کیا تھا۔ تاہم 1948 میں تپ دق سے اُن کے انتقال کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا رہنما مو جود نہیں تھا جو آئینی اُمور اور فہم و فراست میں اُن کا ہم پلہ ہوتا۔ یوں مرکز، صوبوں اور ریاستی اداروں کے درمیان چپکلش اور رسا کشی کا ایک دور شروع ہو گیا اور آزادی کے محض 24 برس بعد ہی یہ ملک دو لخت ہو گیا۔

آج آزادی کے 70 برس بعد بھی پاکستان میں ریاست، حکومت اور عوام کے درمیان شدید بداعتمادی اور بدامنی کی فضا موجود ہے اور تمام ادارے مفلوج ہو کر بڑی حد تک اپنے آئینی کردار کو نبھانے سے قاصر ہیں۔ اگرچہ قائد اعظم کی شخصیت اب بھی پاکستانی عوام اور ریاست کیلئے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، ملکی سیاست اور قیادت اُن کے راہنما اُصولوں سے دور نظر آتی ہے۔

قائد اعظم کے بارے میں مشہور کتاب The sole Spokeman کی مصنفہ ڈاکٹر عائشہ جلال کا کہنا ہے کہ سرحد کے دونوں جانب جناح کی بے قدری نے اُن اصولوں کو پامال کر دیا ہے جن کے تحت اُنہوں نے اپنی تمام زندگی جدوجہد کی تھی۔ بھارت میں اُنہیں فرقہ ورانہ اور نسلی منافرت کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک ایسی شخصیت سے تعبیر کیا گیا جن کی وجہ سے ہندوستان کا نقشہ بدل کر رہ گیا۔ پاکستان میں اُ ن کا حوالہ محض جذباتی نعروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔

عائشہ جلال کہتی ہیں کہ قوموں کو ہمیشہ عظیم ہیرو درکار ہوتے ہیں اور قائد اعظم بلا شبہ پاکستان کے ایک ایسے ہیرو ہیں جن پر ساری قوم فخر کرتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بھی قائداعظم کی شخصیت کو جس انداز میں پیش کیا گیا ہے، کیا وہ حقائق اور خود اُن کے اصولوں سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا موجودہ پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان کہا جا سکتا ہے؟ کیا قائداعظم کی شخصیت اور کردار موجودہ پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں؟ یہ یقیناً سب کیلئے ایک ایک لمحہ فکریہ ہے۔

XS
SM
MD
LG