سپریم کورٹ آف پاکستان نے شاہ زیب قتل ازخود نوٹس کیس میں سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ گرفتار کرنے کا حکم دیا ہے جس کے بعد مقدمے میں نامزد شاہ رخ جتوئی، سجاد تالپور اور سراج تالپور کو کمرۂ عدالت کے باہر سے گرفتار کرلیا گیا۔
عدالت نے شاہ زیب قتل کیس میں دہشت گردی کی دفعات کو بحال کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کیس ریمانڈ کرنے کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا ہے اور تمام اپیلیں سندھ ہائی کورٹ واپس بھیج دی ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمعرات کو از خود نوٹس کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
کیس میں نامزد چوتھا ملزم پہلے سے ہی جیل میں ہے۔ سپریم کورٹ نے کیس کو دوبارہ سندھ ہائی کورٹ بھیجتے ہوئے ماتحت عدالت کو حکم دیا ہے کہ دو ماہ میں مقدمے کا میرٹ پر فیصلہ کرے۔
عدالت عظمیٰ نے مقدمے کے حتمی فیصلے تک ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
مقدمے کی سماعت کے دوران شاہ رخ جتوئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ امیر آدمی کا بیٹا ہونا کوئی جرم نہیں۔ شاہ زیب بھی ڈی ایس پی کا بیٹا تھا جس نے پہلے تھپڑ مارا۔ اس کیس میں مقتول کے اہلِ خانہ سے صلح ہو گئی ہے اس لیے زیادہ بات نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو سپریم کورٹ نے آزادی سے فیصلے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے خود کئی فیصلوں میں دہشت گردی کی دفعات ختم کیں۔ سو موٹو میں ملزمان کو فریق ہی نہیں بنایا گیا تھا۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ 18 سال کے لڑکے کے خلاف 460 درخواستیں دائر ہوگئیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملزم 18 سال کا نہیں بلکہ بڑا ہے۔
سپریم کورٹ میں شاہ رخ جتوئی کے وکٹری کا نشان بنانے کا بھی تذکرہ ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وکٹری کانشان خوشی میں بنایا تھا؟جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ وکٹری کا نشان بچے کولے ڈوبا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکٹری کا نشان گاڑی میں سے بھی دکھا رہا تھا۔ لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ سیاست دان کرپشن پر بھی وکٹری کانشان بناتے ہیں۔
شاہ رخ جتوئی نے کہا کہ وکٹری کا نشان "بچپنے میں بن گیا تھا۔" اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ملزم کو کرپشن پر گرفتار کرنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ملزم پہلے بار روم میں چھپ گیا اور چار گھنٹے بعد باہر نکلا لیکن گاڑی میں بیٹھتے ہوئے کیمرے دیکھ کر وکٹری کا نشان بنانے لگا۔
نومبر 2017ء میں سندھ ہائی کورٹ نے شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور، سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ کی سزائیں کالعدم قرار دے دی تھیں اور مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کرتے ہوئے مقدمہ ازسرِ نو سماعت کے لیے سیشن عدالت کو بھیج دیا تھا جس نے ملزمان کی ضمانت منظور کرکے انہیں رہا کردیا تھا۔
چاروں ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں 2012ء میں پولیس آفیسر اورنگزیب کے جواں سال بیٹے شاہ زیب کو جھگڑے کے بعد قتل کردیا تھا۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس لیے جانے کے بعد ملزمان کا مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں چلا تھا۔ سماعت کے دوران مقتول کے باپ نے قاتلوں کے گھر والوں سے صلح نامہ کرلیا تھا تاہم سپریم کورٹ نے اسے قبول کرنے کے بجائے مقدمہ چلانے کا حکم دیا تھا۔