رسائی کے لنکس

بھارت کی ثقافتی تاریخ دوبارہ لکھی جا رہی ہے؟


بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی کی حکومت نے ایک 14 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جسے بھارت کی ثقافتی تاریخ پر نظر ثانی کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہے کہ بھارت میں موجود تمام افراد خطے میں موجود قدیمی ہندو باشندوں ہی کی اولادیں ہیں اور مہابھارت اور ویدا جیسی ہندو مقدس کتابیں دیو مالائی نہیں ہیں بلکہ وہ اسی طرح حقائق پر مبنی ہیں جیسے قرآن اور انجیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے۔

تاہم بھارت کے ممتاز دانشور اور تجزیہ کار ڈاکٹر منیش کمار نے وائس آف امریکہ اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ کو تبدیل کرنے کی پالیسی نئی نہیں ہے۔ اس سے پہلے جب 1998 میں بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی اقتدار میں آئی تھی تو وہ اُس وقت بھی تاریخ کو از سر نو ترتیب دینے کی بات کرتی تھی۔ یوں آر ایس ایس اور بی جے پی کی یہ پرانی خواہش رہی ہے اور اب جبکہ یہ جماعتیں ایک بار پھر اقتدار میں ہیں، وہ اس پر عملدرآمد کرنا چاہتی ہیں۔

ڈاکٹر منیش کمار کے مطابق بی جے پی حکومت کے اس بارے میں تین بڑے مقاصد ہیں۔ پہلے تو وہ ملک کی قدیمی تاریخ کو اس انداز میں دوبارہ لکھنے کی خواہاں ہے جس سے ثابت ہو کہ بھارت میں باہر سے کوئی آ کر آباد نہیں ہوا۔ بلکہ بھارت میں آباد تمام مذاہب کے لوگ قدیمی زمانے میں یہاں بسنے والے ہندوؤں کی ہی اولادیں ہیں۔ دوسرے وہ قرون وسطیٰ میں مغل سلطنت کے اثرورسوخ کو کم کر کے ہندو راجاؤں مہاراجاؤں کو تاریخ میں نمایاں مقام دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی کا تیسرا مقصد بھارت کی جدید تاریخ میں پنڈت نہرو اور اُن کے خاندان کے اثرورسوخ کو کم کرنا ہے۔

ڈاکٹر منیش کمار کہتے ہیں کہ بھارت میں بی جے پی حکومت کی یہ پالیسی کامیاب نہیں ہو سکے گی اور اگر حکومت نے اس سلسلے میں کچھ قدم اُٹھا بھی لئے تو نئی آنے والی حکومتیں اُن کو ختم کر دیں گی۔ اس کے علاوہ ملک کی تاریخ کے بارے میں حقیقی تحقیق اعلیٰ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں میں ہو رہی ہے اور ایسی حکمت عملی کا اس تحقیق پر کوئی اثر نہیں ہو پائے گا۔

ملکی تاریخ کو از سر نو لکھنے کیلئے بی جے پی حکومت کی طرف سے قائم کی جانے والی اس کمیٹی میں ماہرین تعلیم، دانشور، آثار قدیمہ کے ماہرین اور سرکاری اہلکار شامل ہیں۔ کمیٹی کے چودہ میں سے بارہ ارکان سے گفتگو کے بعد خبر رساں ادارے رائیٹرز کا کہنا ہے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند قوتیں اپنا اثرورسوخ سیاسی میدان سے آگے بڑھاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی خواہاں ہیں کہ بھارت ہندوؤں کا ملک ہے اور یہ ہندوؤں کیلئے ہی ہے۔ یوں کمیٹی بھارت کی تاریخ کا از سر نو تعین کرے گی۔

بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا پورٹریٹ
بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کا پورٹریٹ

بھارت کا آئین دلت ذات سے تعلق رکھنے والے ماہر قانون ڈاکٹر امبیدکر کی سربراہی میں تشکیل دیا گیا تھا جس میں بھارت میں موجود تمام مذاہب، عقائد اور ثقافتوں کو برابر حیثیت دی گئی تھی۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی بھارت کے سیکولر تشخص، برداشت اور رواداری کو فروغ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی ثقافت کو ہندو ثقافت قرار دینا حقائق کے منافی ہے۔ پنڈت نہرو کے بعد پہلی سات دہائیوں کے دوران بھارت کی سیکولر پالیسی کسی نہ کسی طریقے سے چلتی رہی۔

بھارت کی کانگریس پارٹی کے ممتاز رہنما ششی تھرور کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں بھارت میں قوم پرستی کی ہوا تیز ہونے سے بھارت کا کثیر جہتی تصور دم توڑتے ہوئے ہندوؤں کی ثقافتی برتری کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

بھارت کی لگ بھگ ایک ارب تیس کروڑ آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں پر مشتمل ہے۔ یوں سب سے بڑی اقلیت کے حوالے سے مسلمانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ بھارتی مسلمان آجکل جس قدر امتیازی سلوک سے گزر رہے ہیں، بھارت کی تاریخ میں پہلے کبھی ایسا نہیں تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانے کی خواہاں ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی۔ فائل فوٹو
بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی۔ فائل فوٹو

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنے کا تصور بھارت کی انتہا پسند جماعت راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کے نظریات پر مبنی ہے۔ اس جماعت نے 2014 میں نرندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے انتخاب جیتنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب وزیر اعظم مودی کی کابینہ میں زراعت، مواصلات اور داخلی سلامتی کی وزارتیں بھی آر ایس ایس کے پاس ہیں۔

​وزیر اعظم نرندر مودی کی طرح بھارت کے وزیر ثقافت مہیش شرما بھی آر ایس ایس میں بہت فعال رہے ہیں اور وہ اس ثقافتی کمیٹی کے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں موجود ساڑھے سترہ کروڑ مسلمانوں سمیت تمام لوگ زمانہ قدیم میں ہندو تھے۔ لہذا اُنہیں ہر صورت اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ماننا پڑے گا کہ اُن کے آباؤاجداد بھارت ماتا کے سپوت تھے۔

بھارت کے وزیرِ ثقافت مہیش شرما
بھارت کے وزیرِ ثقافت مہیش شرما

بھارتی وزیر ثقافت مہیش شرما نے رائیٹرز کو بتایا ہے کہ ثقافتی کمیٹی کی طرف سے ہندو پہلے کی بنیاد پر مرتب کردہ نتائج کو بھارتی اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے اسکولوں کے نصاب میں یہ پڑھایا جا رہا تھا کہ وسطی ایشیا سے بہت سے لوگ اب سے 3000 سے 4000 سال پہلے بھارت آئے تھے جن سے بھارت کی آبادی کا نقشہ تبدیل ہو گیا تھا۔

تاہم قوم پرست گروپ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما اس تصور کو مسترد کرتے ہیں کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر امیگریشن ہوئی تھی۔ بھارت کی معروف تاریخ دان اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر رومیلہ تھاپڑ کہتی ہیں کہ قوم پرستوں کیلئے یہ بات اہم ہے کہ بھارت کی سر زمین پر پہلے کس نے قدم رکھا تھا۔ یوں قوم پرستوں کیلئے ہندوؤں کی برتری ثابت کرنے کیلئے یہ دعویٰ کرنا اہم ہے کہ اُن کا مذہب مقامی تھا اور یہ باہر سے بھارت میں نہیں آیا تھا۔

وزیر ثقافت مہیش شرما کہتے ہیں کہ اُن کی ترجیح یہ ثابت کرنا ہے کہ مہا بھارت اور رامائن دیو مالائی تصور سے ہٹ کر حقائق پر مبنی مقدس کتابیں ہیں۔ رامائن میں ہندو دیوتا رام کو انسانی روپ میں پیش کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی بیوی کو ایک شیطان صفت بادشاہ راون کی قید سے چھڑاتے ہیں۔ شرما کا کہنا ہے کہ اس کہانی سے مردوں اور عورتوں کے صنفی کردار اور اُن کے فرائض کا اظہار ہوتا ہے۔

شرما نے رائیٹرز کو یہ بھی بتایا کہ ثقافتی کمیٹی آثار قدیمہ کی تحقیق سے سرسوتی دریا کا وجود بھی ثابت کرے گی۔ اس دریا کا ذکر ہندوؤں کی ایک اور مقدس کتاب ویدا میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی ان مقدس کتابوں میں مذکور مقامات اور اشیاء کی نشاندہی بھی کرے گی اور ان میں موجود واقعات کے حقیقی وقت اور دور کا تعین کرے گی۔ اس کے علاوہ مہا بھارت کی جنگوں کے مقامات کو بھی کھدائی کے ذریعے دریافت کیا جائے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثقافتی کمیٹی اپنی تحقیق میں ہندوؤں کی مقدس کتابوں میں موجود واقعات اور اشیاء کے ساتھ وقت کا تعین کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہندوؤں کی مقدس کتابوں کو بھی بھارت کی قدیمی تاریخ قرار دینا ممکن ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG