رسائی کے لنکس

پاکستانی ڈرامہ کچن اور بیڈ روم سے نکل رہا ہے


حال ہی میں پیمرا کی جانب سے ٹی وی چینلز کو ایک خط بھیجا کیا گیا جس میں انہیں متنازعہ اور غیر اخلاقی موضوعات پر مبنی ڈراموں کی نشریات فوری روکنے کی ہدایت کی گئی۔

خط میں کہا گیا کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری زوال کا شکار ہے اور یہ کہ پاکستانی ڈرامہ حقیقی پاکستانی معاشرے کی عکاسی نہیں کر رہا۔

وائس آف امریکہ نے ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ہدایت کاروں اور قلم کاروں سے چند فیس بک لائیو انٹرویو کیے جن میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری زوال کا شکار ہے۔

ہدایت کار اور اداکار سرمد کھوسٹ نے کہا کہ میں اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں کہ ہم نے ڈراموں سے نفاست نکال دی ہے، ایکٹنگ کا معیار گر گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مگر سوال یہ کیا جانا چاہئے کہ نجی ٹی وی نے سٹار پلس کو اپنا رول ماڈل کیوں بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب نجی ٹی وی کا زمانہ آیا تو ہم نے ڈرامے کو کامیاب کرنے کے کچھ اصول طے کر لیے اور اس میں سے بہت سے ایسی چیزیں نکالنی شروع کر دیں جو ہمارے ڈراموں کا خاصہ تھا۔

معروف قلم کار فصیح باری خان نے کہا کہ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ’’ ڈرامہ جیسے کوئی جاں بلب مریض ہے جو بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈراموں میں پہلے جیسی کردار نگاری نظر نہیں آتی۔

انہوں نے کہا کہ ڈرامہ انڈسٹری نے جب غیر معیاری ناولوں کی ڈرامائی تشکیل کی اور اس سے ریٹنگ آئی تو پھر انہوں نے اسی طرح کے ڈرامے تیار کرنے شروع کر دیے۔

معروف قلم کار آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ کیسا ڈرامہ لکھا جائے اس کا فیصلہ ہمارے ہاں کوئی دانش ور نہیں کرتا۔ یہ اختیار کانٹینٹ ہیڈ اور چینل مالکان کے پاس ہوتا ہے۔ وہ سال کے شروع میں ہی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اس سال کیسا مواد دکھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا، ’’ہمارے ہاں جب یہ معاملہ سیٹھوں کو دے دیا گیا تو پھر زوال تو آئے گا ہی نا؟‘‘

پیمرا کے اس اعتراض پر کہ ڈراموں کے موضوعات خواتین کے گرد گھومتے ہیں، اس پر فصیح باری خان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ بھیڑ چال ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی وجہ ریٹنگ کا لالچ ہے۔ کانٹینٹ میں جو بیٹھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر سکرپٹ میں عورت کو دو جوتے لگ رہے ہیں تو اسے چار لگتے دکھاؤ، عورت روئے گی، مرد کے پیروں میں گرے گی تو زیادہ ریٹنگ آئے گی۔

اگر یہ کسوٹی ہو گی تو پھر آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔

آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ گھر سے باہر تفریح کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے گھر میں ٹی وی پر خواتین کا قبضہ ہو گیا۔ ہمارے ناظرین 15 سے 45 برس کی خواتین ہیں۔ ایسے میں جو ڈرامے بنیں گے وہ ان کے مسائل پر ہی بنیں گے۔

مگر ان کا کہنا تھا کہ اس میں بھی ٹرینڈ تبدیل ہو رہا ہے۔

’’اب جن مسائل پر بات ہو رہی ہے وہ بیڈ روم اور کچن سے نکل کر چار دیواری میں خواتین کے استحصال پر بات ہے۔ جو بات اب سکرین پر نظر آ رہی ہے جسے خواتین بول نہ سکیں۔ اب اور کچھ نہ بھی کر سکیں تو اسے خاموشی سے بیٹھ کر دیکھ تو سکتی ہیں۔‘‘

آمنہ مفتی کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے پیمرا ہمیں وضاحت کے ساتھ شقیں بھیج دے کہ یہ حقیقی پاکستانی معاشرہ ہے کیا۔

انہوں نے کہا، ’’مجھے تو جو حقیقی پاکستانی معاشرہ نظر آتا ہے، اس میں ہم بیٹیوں کو بیچتے بھی ہیں۔ ان کو جلاتے بھی ہیں اور ان پر ظلم بھی کرتے ہیں۔ جائداد سے ان کا حصہ بھی چھینتے ہیں اور ان کی زبردستی شادی بھی کی جاتی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ میں تو جیسا حقیقی پاکستانی معاشرہ اپنے ارد گرد دیکھتی ہوں اس پر ہی لکھتی ہوں۔

سرمد کھوسٹ نے کہا کہ پیمرا کا خط بہت مبہم تھا۔ جہاں اخلاقیات اور نفاست کی بات ہے تو پیمرا کو اس کی وضاحت کرنی چاہئے تھی۔

فصیح باری خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پہلے ہی گھسے پٹے سکرپٹ لکھتے ہیں وہ پیمرا کی ہدایت کے مطابق ہی لکھنا شروع کر دیں گے۔ مگر نشانہ وہ بنیں گے جو حقائق پر مبنی ڈرامہ لکھنا چاہیں گے۔

سرمد کھوسٹ نے پیمرا کے ادارے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آخر ایسا کیوں نہیں ہے کہ سرکار ایسے لوگوں کو ان اداروں میں جگہ دے جو اس کام کو جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج اگر امجد اسلام امجد، حسینہ معین یا منیزے ہاشمی یہ بات کریں تو اس میں وزن بھی ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ جب بھی کلچر کی بات آئے گی تو وہاں بیوروکریسی کیسے آ سکتی ہے۔ بیوروکریسی کا اس میں کوئی کام نہیں ہے۔

بیوروکریٹس تو بیوروکریٹس ہیں۔ اور فنکار فنکار ہیں۔

XS
SM
MD
LG