افغان طالبان کے نمائندے ماسکو میں افغان حزب اختلاف کے بااثر رہنماؤں سے ملاقات میں افغانستان میں قیام امن سے متعلق تبادلہ خیال کریں گے تاہم افغان حکومت کے نمائندے اس کانفرنس میں موجود نہیں ہو ں گے۔
اس متنازع اجلاس کو تجزیہ کار افغانستان میں ایک گہری ہوتی ہوئی تقسیم کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس کی وجہ سے صدر اشرف غنی کی اتحادی حکومت کو مزید کمزور کرے گی۔
روس میں افغانوں کے بابین امن ملاقات امریکی حکام کے ان بیانات کے بعد ہو رہی ہے جن میں طالبان باغیوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اہم پیش رفت پر بات کی گئی ہے تاہم ماسکو میں منگل کو شروع ہونے ان مذاکرات میں بھی افغان حکومت کے نمائندے شریک نہیں ہوں گے۔
طالبان افغان حکومت سے براہ راست بات چیت سے انکار کرتے ہیں جسے وہ امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت قرار دیتے ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان نے’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے ایاز گل کو تصدیق کی ہے کہ ماسکو میں ہونے والی بات چیت میں طالبان کے قطر میں قائم ‘‘سیاسی دفتر’’ کا وفد طالبان کے اعلیٰ مذاکرات شیر محمدعباس سٹینکزئی کی قیادت میں شرکت کرے گا۔
افغان حکومت کی تنقید کی وجہ سے روس نے خود کو ماسکو میں ہونے والے اس اجلاس سے الگ کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو میں طالبان اور افغان نمائندوں کے درمیان متنازع بات چیت ماسکو کی واشنگٹن کے ساتھ مخاصمت کی مظہر ہے۔
تاہم کابل میں روس کے سفارت خانے نے ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ یہ ملاقات روس میں قائم ’افغان سوسائٹی کونسل‘ کے تحت ہورہی ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن کا فروغ ہے۔
ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں 38 رکنی افغان سیاسی وفد شرکت کرے گا جس میں متعد د خواتین، اہم سیاسی رہنما، صدراتی امیدوار، قانون ساز اور قبائلی عمائدین شرکت کریں گے جو اشرف غنی کی حکومت کے نقاد ہیں۔
افغانوں کے مابین بات چیت کی طر ف پہلا قدم
افغانستا ن کے سابق صدر حامد کرزئی ، قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمار جو اشرف غنی کے مقابلے میں جولائی کے صدارتی انتخاب میں امیدوار بھی ہیں، محمد محقق، سابق گورنر محمد اسمعیل خان اور عطا محمد نور بھی شریک ہو ں گے جو 1979ء میں افغانستا ن میں سویت مداخلت کے بعد اس کے خلاف برسر پیکار رہے وہ بھی اس وفد میں شامل ہیں۔
افغان وفد کی طرف سے مشترکہ طور پر جاری ہونے والے ایک بیان میں منگل کو روس میں ہونے والے اجلاس کو امن عمل کے لیے’ افغانوں کےمابین بات چیت کی طرف پہلا قدم‘ قرار دیا ۔
بیان کے مطابق افغان وفد نے کہا ’ ہم توقع کرتے ہیں کہ ماسکو میں ہونے والا اجلاس افغان امن کی امریکی کوششوں کے لیے قومی اور علاقائی اتفاق رائے پید اکرنے کے لیے مدد گار اور حوصلہ افزائی ہوگا۔‘
بیان میں افغان حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ ملک میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ’اپنا تعمیری کردار‘ادا کرے۔
افغان وزارت خارجہ کے ترجمان ضبغت اللہ احمدی سے جب نامہ نگاروں نے ماسکو اجلاس میں ان کے ردعمل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’ـ ایسے اجلاس منعقد کرنا امن تک پہنچنے میں کسی طور مدگار نہیں ہیں، یہ ایک سیاسی ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں ۔‘
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد اور طالبان کے مذاکرات کارو ں کے درمیان دوحہ بات چیت کا آئندہ دور 25 فروری کو ہو گا۔
گزشتہ ماہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں چھ روزہ بات چیت کے بعد خلیل زاد اور طالبان کے اعلیٰ مذاکرات کار اسٹینکزئی نے اپنے الگ الگ بیانات میں اعلان کیا تھا کہ طالبان کی طرف سے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے عوض مستقبل میں افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نا ہونے کی یقینی دھانی کروانے سے متعلق معاہدہ طے پانے پر تقریباً اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
تاہم خلیل زاد نے مزید پیش رفت کے لیے جامع جنگ بندی اور افغانوں کے مابین قومی مذاکرات کے عمل میں طالبان کی شرکت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
وائس آف امریکہ اردو کی سمارٹ فون ایپ ڈاون لوڈ کریں اور حاصل کریں تازہ تریں خبریں، ان پر تبصرے اور رپورٹیں اپنے موبائل فون پر۔
ڈاون لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
اینڈرایڈ فون کے لیے:
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.voanews.voaur&hl=en
آئی فون اور آئی پیڈ کے لیے:
https://itunes.apple.com/us/app/%D9%88%DB%8C-%D8%A7%D9%88-%D8%A7%DB%92-%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88/id1405181675