بھارت کی حکومت نے جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ہے۔
حکومت نے جماعت پر ملک دشمن اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس پر پابندی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق قانون کے تحت عائد کی ہے۔
پابندی کا فیصلہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں کیا گیا تھا جس کے بعد وزارتِ داخلہ نے جمعرات کی شام اس کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جماعتِ اسلامی جموں وکشمیر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہے جو ملکی سلامتی کے خلاف ہیں۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق جماعت کے جنگجو تنظیموں کے ساتھ قریبی روابط ہیں اور وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کی حمایت کرتی ہے جو بھارت کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
نوٹیفکیشن میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ جماعتِ اسلامی کشمیر میں ایک آئینی حکومت کو غیر مستحکم کر کے وہاں اسلامی حکومت کے قیام کی خواہاں ہے۔
واضح رہے کہ پابندی سے قبل پولیس نے کشمیر میں جماعتِ اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن کیا تھا جس میں جماعت کے کشمیر کے امیر ڈاکٹر عبدالحمید فیاض، ترجمان زاہد علی اور دیگر عہدے داروں سمیت 200 کے قریب ارکان کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
جماعت اسلامی کشمیر کا پس منظر
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی جماعتِ اسلامی پاکستان کی جماعتِ اسلامی یا جماعتِ اسلامی ہند کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ الگ شناخت اور تنظیم رکھتی ہے اور کشمیر میں مذہبی، سیاسی اور سماجی سطح پر سرگرم رہی ہے۔
کشمیر میں جماعت کی بنیاد مہاراجہ ہری سنگھ کے دور میں عوامی جدوجہد کے دوران رکھی گئی تھی۔ کشمیر کی متنازع حیثیت کے پیشِ نظر جماعتِ اسلامی ہند نے 1952ء میں کشمیر کی جماعتِ اسلامی کو خود سے الگ کرنے کا باضابطہ اعلان کیا تھا۔
جماعتِ اسلامی کشمیر کا مؤقف رہا ہے کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے اور اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا چاہیے۔ جماعت کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ بھی کرتی آئی ہے۔
تیسری بار پابندی
جموں و کشمیر کی جماعتِ اسلامی پر بھارت کی حکومت نے تیسری بار پابندی عائد کی ہے۔
اس سے قبل ریاست کی حکومت نے جماعت پر 1975ء میں پابندی لگائی تھی جو چند سال بعد اٹھالی گئی تھی۔
1980ء کی دہائی کے آخر میں کشمیر پر بھارت کے اقتدار کے خلاف شروع ہونے والی مسلح مزاحمت کے بعد بھی بھارتی حکومت نے جن جماعتوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا ان میں جماعت شامل تھی۔
مسلح مزاحمت اور جماعت
80ء کی دہائی کے آخر میں مسلح تحریک کے آغاز پر جماعتِ اسلامی اور اس کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیتِ طلبہ سے وابستہ کئی اہم رہنماؤں اور کارکنوں نے بھارت کے خلاف مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تھا۔
بندوق اٹھانے والے جماعت سے وابستہ افراد میں محمد یوسف شاہ بھی شامل تھے جو بعد میں سید صلاح الدین کے نام سے مشہور ہوئے۔ صلاح الدین کشمیر میں سرگرم سب سے بڑی مسلح تنظیم 'حزب المجاہدین' کے سپریم کمانڈر اور پاکستان نواز عسکری تنظیموں کے اتحاد 'متحدہ جہاد کونسل' کے سربراہ ہیں۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر تعلیمی محاذ پر بھی خاصی سرگرم رہی ہے۔ اس نے بھارتی کشمیر میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے تاہم 1975ء میں اس پر ریاستی حکومت کی طرف سے پابندی عائد کیے جانے کے بعد حکومتِ وقت نے ان تعلیمی اداروں کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔
بعد میں جماعتِ اسلامی نے ایک ٹرسٹ قائم کرکے اس کے تحت تعلیمی سرگرمیاں بحال کی تھی۔
جماعت اسلامی پر پابندی کا ردِ عمل
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنماؤں اور ہم خیال سیاسی جماعتوں نے جماعت پر پابندی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ جماعتِ اسلامی بھارتی زیرِ انتظام کشمیر میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہی تھی۔
تاہم کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں اور رہنماؤں نے جماعت پر پابندی کی سخت مذمت کی ہے۔ جماعت کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن پر وادی میں رواں ہفتے ہڑتال بھی کی گئی تھی۔
جماعتِ اسلامی پر پابندی عائد کیے جانے کے فیصلے پر تجزیہ نگار پروفیسر شیخ شوکت حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی نظریاتی تنظیم پر پابندی عائد کرنے سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جماعتِ اسلامی پر پہلے بھی پابندی عائد کی گئی تھی لیکن بعد میں یہ اور مضبوط بن کر سامنے آگئی۔ ان کے بقول کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ پابندی لگنے کے بعد جماعتِ اسلامی ختم ہوجائے گی۔