متحدہ عرب امارات نے ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستان سمیت 70 سے زائد ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو مستقل سکونت دینے کا اعلان کیا ہے۔ امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم شیخ محمدبن راشد المکتوم کی جانب سے کیے گئے اس اعلان کو گولڈن کارڈ اسکیم کا نام دیا گیا ہے۔
عرب امارات کے ڈائریکٹریٹ جنرل آف ریذیڈنسی اینڈ فارن افیئرز کے سربراہ جنرل محمد احمد الماری کے مطابق اسکیم کے تحت پہلے مرحلے میں 6800 غیر ملکیوں کو گولڈ کارڈ کا اہل قراردیا گیا ہے۔
محمد احمد الماری کا کہنا ہے کہ گولڈ کارڈ کے اجرا سے جہاں امارات کی معیشت بین الاقوامی سطح پر مضبوط ہو گی، وہیں گولڈن کارڈ اسکیم کے تحت سرمایہ کاروں، تاجروں، صحت، انجینئرنگ، سائنس اور فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں غیر معمولی مہارت رکھنے والوں کو عرب امارات کی مستقل سکونت مل سکے گی۔
اسکیم کے اعلان کے ساتھ ہی غیر ملکیوں خاص طور پر پاکستانی کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ عرب امارات میں موجود پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو اس اسکیم کے تحت عرب امارات کی مستقل سکونت ملنے کی امید ہو گئی ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے 80 کی دہائی میں امارات جانے کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور اس دور میں لاکھوں پاکستانی کام کی غرض سے متحدہ عرب امارات گئے تھے۔
لاکھوں افراد دبئی سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں روزگار کی غرض سے گئے اور کئی سال وہاں مقیم رہنے کے بعد واپس آئے، جب کہ بہت سے کنبے اب بھی ان ممالک میں قیام پذیر ہیں۔
اب بھی بہت سے افراد ایسے ہیں جنہیں گئے ہوئے عشرے بیت گئے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔ کوئی وہاں مستقبل ملازمت کرنے لگا تو کسی نے بزنس کر لیا اور یوں خاندان کے خاندان وہیں آباد ہو گئے۔
تقریبا چالیس سال پہلے شروع ہونے والا یہ سلسلہ اب اس مرحلے میں ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں نے وہاں اسپتالز، ہوٹلز، اسکولز اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار جمایا ہوا ہے جب کہ سینکڑوں افراد بینکوں اور دیگر اداروں میں ملازمت کر رہے ہیں۔
نعیم صدیقی بھی ایسے ہی افراد میں شامل ہیں جو عرصے سے دبئی میں مقیم ہیں۔ وہ پاکستان سے چاول امپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ عرب امارات میں سالوں تک رہنے کے باوجود ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہا کہ کتنے ہی سال یہاں کیوں نہ رہ لیں، ایک دن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس جانا پڑے گا، پھر کیا ہو گا؟ کیوں کہ عرب ممالک میں مسقبل سکونت، شہریت یا قومیت ملنے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ اعلان میرے جیسے تاجر کے لیے مردے میں جان پھونکنے کے مترادف ہے۔
اس اسکیم کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شارجہ میں پچھلے پندرہ سالوں سے مقیم ایک اور پاکستانی تاجر دانش ہمایوں کہتے ہیں۔
"اس خبر نے پاکستانیوں سمیت دیگر کمیونٹیز میں خوشی کی لہر دوڑا دی ہے۔ خاص کر ایسے افراد بہت سکون میں آ گئے ہیں جن کا سرمایہ یہاں لگا ہوا ہے۔ اس وقت پاکستانیوں کے بے شمار ہوٹلز، کمپیوٹر کے تربیتی ادارے، مختلف کاروباری دکانیں، دفاتر، اشتہاری کمپنیاں، کیفے، ریسٹورنٹس، ٹیوشن سینٹرز اور تعلیمی ادارے اور بڑے بڑے بزنس ہاؤسز یہاں قائم ہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں کی انویسمنٹ ہے گولڈن کارڈ کے اجرا نے ان کے ڈوب جانے کے خدشات کو کم کردیا ہے۔ اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہو گا کیوں کہ زرمبادلہ جب پاکستان پہنچے گا تو معشیت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔"
امارات کے نائب صدر اور وزیراعظم راشد المکتوم کے اعلان کے مطابق سرمایہ کاروں کے پہلے بیچ سے 27 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری محفوظ ہو جائے گی اور دنیا بھر کے ماہر انجینئرز، سائنسدان اور غیر معمولی طور پر ذہین طالب علم یہاں کا رخ کر سکیں گے۔
خلیجی ممالک میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی اسکیم ہے۔ ان ممالک میں اب تک کفالہ اسپانسر شپ سسٹم کے تحت محدود مدت تک رہائش کی اجازت ہوتی ہے۔ کفالہ کے تحت کاروبار کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کے لیے کسی مقامی شہری کے ساتھ معاہدہ کرنا ضروی تھا اور یہ معاہدہ مقامی افراد کے لیے ماہانہ اور سالانہ آمدنی کا بڑا ذریعہ رہا ہے۔
امارات، عرب دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے جو بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ امارات کی مقامی آبادی نو ملین کے لگ بھگ ہے جب کہ یہاں مقیم غیر ملکی افراد کی تعداد مقامی آبادی کے مقابلے میں 90 فیصد ہے۔
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی ترقی میں غیر ملکیوں کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اسی لیے انہیں تاریخ میں پہلی بار مستقل سکونت دیے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس اعلان پر جہاں بہت سے افراد نے اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا ہے وہیں کچھ افراد نے اس اسکیم پر کچھ سخت سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ جیسے شارجہ کی ایک فرم کے پاکستانی انجینئر عاقب اقبال کا کہنا ہے کہ " گولڈن کارڈ اسکیم مخصوص یا بڑے کاروباری افراد کے لیے تو لاجواب ہے لیکن عوامی سطح پر اس کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ یہ اسکیم بھی ماضی کی طرح اعلان کردہ کچھ دیگر اسکیموں کی طرح صرف ایک طبقے تک لیے سود مند ثابت ہو گی۔"
محمد ناصر ایک فرم کے سیکورٹی شعبے سے وابستہ ہیں جن کا کہنا ہے "ہم جیسے عام لوگوں کے لیے اس اسکیم میں کچھ نہیں۔ نہ ہم انجینئر ہیں نہ ڈاکٹر۔ نہ سرمایہ کار ہیں اور نہ ہی کاروبار کرتے ہیں۔ ہمیں گولڈن کارڈ کون دے گا۔ ہمیں تو عمر کے آخری حصہ میں ہاکی کی طرح یلو کارڈ دکھا دیا جائے گا اور بس۔۔۔"
کچھ اور افراد کا کہنا ہے کہ ماضی میں طویل مدت تک سکونت دیے جانے کی اسکیموں کا اعلان کیا جاتا رہا ہے لیکن انہیں عوامی پذیرائی صرف اس لیے نہیں مل سکی کہ اہلیت کا معیار بہت زیادہ سخت تھا حتیٰ کہ یہ عوام کی پہنچ سے بھی بہت دور ہی رہیں۔ جیسے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والوں کو ترجیح دینے کا اعلان ہو تو اس سے بہت ہی کم لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے کیوں کہ بیشتر افراد پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈر نہیں ہیں؟"
دنیا کے کئی ممالک چند برس رہائش رکھنے کے بعد تارکین وطن کو اپنے ملک کی شہریت دے دیتے ہیں چاہے ان کا ملک ، مذہب اور نسل کچھ بھی ہو لیکن خلیجی یا عرب ممالک میں شہریت کا کوئی تصور نہیں۔