رسائی کے لنکس

مصر میں خواتین کے ختنہ کے خلاف ڈاکٹروں کی مہم


مصر میں یہ مہم ایک 12 سالہ بچی کی ہلاکت کے بعد شروع کی گئی ہے جو اس عمل کے دوران جان سے گئی تھی۔ مہم کا نام بھی "سفید کوٹ" رکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)
مصر میں یہ مہم ایک 12 سالہ بچی کی ہلاکت کے بعد شروع کی گئی ہے جو اس عمل کے دوران جان سے گئی تھی۔ مہم کا نام بھی "سفید کوٹ" رکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو)

مصر میں ڈاکٹروں نے خواتین کے ختنہ کے خلاف ایک مہم شروع کی ہے جس کا مقصد اس عمل سے گزرنے کے بعد خواتین کو درپیش مسائل سے آگاہی دینا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے سفید کوٹوں کو خون کے دھبوں سے داغ دار نہیں کرنا چاہتے۔

مصر میں یہ مہم ایک 12 سالہ بچی کی ہلاکت کے بعد شروع کی گئی ہے جو اس عمل کے دوران جان سے گئی تھی۔ مہم کا نام بھی "سفید کوٹ" رکھا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مصر میں سال 2008 میں خواتین کے ختنہ پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لیکن یہ عمل اب بھی جاری ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے 2016 میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق مصر میں 15 سے 49 برس کی 87 فی صد خواتین ختنہ کے عمل سے گزر چکی ہیں۔

یہ مہم خواتین اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے شروع کی گئی ہے اور قاہرہ کے کئی ڈاکٹرز بھی اس کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹروں نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مظاہرے بھی کیے ہیں۔

قاہرہ کے میٹرو اسٹیشن پر ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک ڈاکٹروں نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر درج تھا کہ یہ عمل جرم ہے اور اسے ترک کرنا چاہیے۔

مظاہروں کی آرگنائزر رندہ فخر الدین نے کہا ہے کہ دوران احتجاج ڈاکٹروں کو خواتین کے ختنے کے حامیوں کی طرف سے سخت جملوں اور چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انہیں آگاہی پہنچانے کے لیے یہ مہم شروع کرنا ضروری تھا۔

مظاہرے کے دوران میٹرو اسٹیشن سے گزرنے والے ایک شخص ابراہیم حسن نے کہا کہ "یہ مذہبی چیز ہے۔ کیا آپ مذہب تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ لوگ صرف وہ سنتے ہیں جو مغرب کہہ رہا ہے۔"

رندہ فخر الدین نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس عمل کی مذہب میں کوئی اساس نہیں اور یہ مصر کے میڈیکل اسکولز میں بھی نہیں سکھایا جاتا ہے۔

انہوں نے 'رائٹرز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوسرے ڈاکٹروں کو بھی یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے سفید کوٹوں کو خون کے دھبوں سے سرخ نہیں کرنا چاہتے اور شہریوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ طبی عملہ اس عمل کو مسترد کرتا ہے۔

عالمی رہنما اورحقوقِ نسوان کے ادارے زور دیتے رہے ہیں کہ خواتین کے ختنہ کی اس قدیم رسم کو 2030 تک مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ لیکن کچھ قدامت پسند معاشروں میں یہ رسم اب بھی موجود ہے اور اس کے حامی اس کا تعلق مذہب سے بھی جوڑتے ہیں۔

بینادی طور پر اس عمل کا مقصد خواتین میں جنسی خواہشات کا خاتمہ ہوتا ہے جس کے لیے بعض قدامت پسند معاشروں میں اس عمل کی حمایت کی جاتی ہے۔

ماہرینِ صحت کہتے ہیں کہ یہ عمل خواتین میں طبی اور نفسیاتی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ اس عمل سے گزرنے کے بعد خواتین کو ماہواری، تولیدگی، حمل اور زچگی کے دوران مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مصر میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کے ختنے پر عائد پابندی کو مؤثر طریقے سے نافذ نہیں کیا جا رہا اور معاشرے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کے حق میں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مصر کی مسلم اور مسیحی آبادی اس عمل میں شریک ہے۔

مصر میں 2014 میں صحت اور آبادیات سے متعلق کیے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پابندی کے بعد خواتین کے ختنے کا عمل اب پرائیویٹ کلینکس اور گھروں پر ڈاکٹروں کو بلا کر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ مصر کی انتظامیہ نے ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر کو گرفتار کیا تھا جس پر ایک بچی کے غیر قانونی ختنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ بارہ سالہ بچی اس عمل سے گزرتے ہوئے ہلاک ہو گئی تھی جس کے بعد ڈاکٹر اور لڑکی کے والدین کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG