پاکستان نے افغان قیادت کی طرف سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام کی نتیجے میں بین الافغان مذاکرات کے عمل کی راہ ہموار ہو گی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کا یہ بیان حال ہی میں افغان قیادت کی طرف سے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے 21 رکنی ٹیم کے اعلان کےبعد سامنے آیا ہے، جس کی قیادت افغانستان انٹیلی جنس ایجنسی کے سابق سربراہ معصوم استنکزئی کریں گے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ''مذاکراتی ٹیم کی تشکیل ایک ایسا اقدام ہے جو افغان قیادت کی جانب سے افغانستان میں امن و مصالحت کو ترجیح دینے کے عزم کی مظہر ہے''۔
دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ''امریکہ طالبان معاہدے نے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کا ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے، اور یہ اسی صورت ممکن ہوگا جب اختلافات کو حل کرکے ایک دوسرے کو دوش دیئے بغیر ملک کے اعلیٰ مفاد کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے مل کر تعمیری انداز میں کام کیا جائے گا''۔
پاکستان نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ ''ایک مشترکہ مقصد کے طور پر افغانستان میں تمام متعلقہ فریق تشدد میں کمی کرنے کی کوشش کریں گے''۔ بیان کے مطابق، ''پاکستان ایک پرامن و خوشحال افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا''۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے لیے کابل کی قیادت کی طرف سے مذکراتی ٹیم کی تشکیل کے خیرمقدم سے قبل امریکہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی اس پیش رفت کا خیر مقدم کر چکے ہیں۔
صدر اشرف غنی اور ان کی سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے صدارتی انتخاب سے متعلق اختلافات کے باوجود عبداللہ عبداللہ نے طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل کی طرف سے وضع کی جانے والے مذاکرتی ٹیم کی تائید اور حمایت کی ہے۔
اگرچہ طالبان نے کابل کی طرف سے وضع کی گئی مذاکراتی ٹیم کو مسترد کرتے ہوئے اس سے بات چیت سے انکار کر دیا ہے، لیکن بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ، یورپی یونین اور پاکستان کی طرف اس مذکراتی ٹیم کی تشکیل کا خیر مقدم کرنا طالبان کے لیے اس بات کا پیغام ہو سکتا ہے کہ انہیں بھی کابل کی مذاکراتی ٹیم سے متعلق اپنے موقف میں نظر ثانی کرنی ہوگی۔
یاد رہے کہ فروری کے اواخر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طے پانے والے معاہدے کے بعد بین الافغان مذاکرات کے آغاز سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا عمل مکمل ہونا تھا۔ لیکن، فریقین کے درمیان اختلافات کی وجہ سے یہ معاملہ مقررہ مدت میں طے نہ ہونے کی وجہ سے بین االافغان مذاکرات شروع نہ ہو سکے۔ لیکن، حال میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ویڈیو کانفرنس پر ہونے والے رابطوں کے بعد فریقین نے قیدیوں کی رہائی پر اتفاق کیا ہے۔ یہ رابطے امریکہ اور قطر کے معاونت سے ہوئے تھے۔
اس سلسلے میں طالبان ترجمان سہیل شاہین کی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طالبان کی ایک تین رکنی ٹیم اپنے قیدیوں کی شناخت کے لیے کابل پہنچ چکی ہے اور عالمی امدادی ادارے آئی سی آر سی کے نمائندوں کی موجودگی میں افغان حکام اور طالبان کے درمیان کابل میں ایک ملاقات ہوئی ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کی رہائی کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو گیا تو بین الافغان مذاکرات کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ دور ہو جائے گی۔