ایسے میں جب کرونا وائرس کی عالمی وبا نے دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے اپنے گھروں پر محصور ہو کر رہ گئے ہیں یا پناہ کی تلاش میں بھاگ رہے ہیں، تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ ایسی وبائیں پہلے بھی انسانی آبادیوں کو تاراج کرتی رہی ہیں۔
ایسی ایک وبا 1918ء میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے، جسے 'اسپینش فلو' کا نام دیا گیا تھا اور اس نے کروڑوں لوگوں کو موت کے گہرے غار میں دھکیل دیا تھا۔
عجیب اتفاق ہے اس سال کے شروع میں جب کرونا وائرس نے ابھی عالمی وبا کی شکل اختیار بھی نہیں کی تھی، یہاں نیویارک کے عجائب گھر میں ایک نمائش شروع ہوئی تھی جس میں 'اسپینش فلو' کی تباہ کاریوں کی عکاسی کی گئی تھی۔
ستم ظریفی یہ کہ تھوڑے عرصے بعد ہی کرونا وائرس کے گہرے بادل اپنی پوری ہولناکیوں کے ساتھ دنیا کے افق پر منڈلانے لگے جس کا موازنہ 'اسپینش فلو' سے بھی کیا جا رہا ہے؛ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً سو سال بعد تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔
وائس اف امریکہ کے لئے ائنیا نیلسن نے اپنی رپورٹ میں یاد دلایا ہے کہ 1918ء میں 'اسپینش فلو' کی وبا نے دنیا بھر میں مختلف اندازے کے مطابق، دو کروڑ سے لے کر دس کروڑ لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ 'اسپیشن فلو' کا امریکہ میں پہلا ریلا ان فوجیوں کے ساتھ آیا تھا جو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے دوران یورپ سے واپس لوٹ رہے تھے، انیس سو اٹھارہ میں موسم گرما کا زمانہ تھا جب جہاز نیو یارک میں لنگرانداز ہوا اور اپنے ساتھ ہی اسپینش فلو مریضوں کو بھی ساحل پر لے آیا۔
نیویارک میوزیم کی سربراہ سارہ ہنری نے تاریخ کے اوراق کو پلٹتے ہوئے یاد دلایا کہ ایسے میں جب نیو یارک سٹی میں اس وقت تمام اسکول بند ہیں، اسپینش فلو کے دوران کافی بحث و مباحثے کے بعد اسکولوں کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اور نیویارک کے تھیٹر بھی کھلے رہے۔
ایک صدی پہلے انٹرنیٹ تو درکنار ریڈیو اور ٹیلی ویژن کا وجود بھی نہیں تھا اور تھیٹر ہی معلومات کی ترویج کا وسیلہ تھا جہاں خود اپنی حفاظت آپ کرنے کے بارے میں بھی آگاہی مہیا کی جاتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فی الوقت جب کہ نیویارک میں زیادہ تعداد میں کرونا وائرس سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں، سو سال پہلے یہاں ہلاکتوں کی شرح بہت سے امریکی شہروں کے مقابلے میں کم تھی۔
اس کی وجہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت حکام نے خطرے کو بروقت بھانپتے ہوئے سب وے کو بند کردیا تھا۔ تمام لوگوں خاص کر نوجوان کارکنوں کے لئے ماسک پہننا لازمی تھا جس پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ دینا پڑتا تھا اور چہرے کو ڈھانپے بغیر کھانسنا اور چھیکنا قانون شکنی کے زمرے میں شمار کیا جاتا تھا اور پولیس کو کاروائی کا اختیار حاصل تھا۔
اُس وقت نیو یارک شہر کی آبادی تقریباً پچاس لاکھ تھی اور بتایا جاتا ہے کہ تیس ہزار سے زیادہ لوگ اسپنیش فلو سے ہلاک ہوگئے تھے۔ اور اس وقت فلو وائرس پر قابو پانے میں شہر کو تقریبا ڈھائی مہینے لگے تھے۔
موجودہ حالات میں کرونا وائرس کو زیر کرنے میں کتنا عرصہ لگے گا اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم، ماہرین کے مطابق، ماضی کے تجربات سے بھی شائد بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔