امریکی حکومت کی معاونت سے ہونے والے ایک مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ کرونا وائرس کے علاج کے لیے انسدادِ ملیریا کی ادویات کا استعمال بے اثر بلکہ کسی حد تک اموات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
گو کہ اس معالعے کا دائرہ کار محدود ہے لیکن اس میں کہا گیا ہے کہ جن مریضوں کو ملیریا کی ادویات دی گئیں، اُن کی شرحِ اموات علاج کے دیگر طریقوں کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ملیریا کی ادویات سے کرونا کے مریضوں کے علاج کو سود مند قرار دیا تھا۔ جس کے بعد دنیا بھر میں 'ہائیڈروکسی کلوروکوئن' نامی دوا کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
مذکورہ جائزے میں امریکہ میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے 368 سابق فوجی اہلکاروں کے میڈیکل ریکارڈ کو بنیاد بنایا گیا ہے جو 11 اپریل تک اسپتالوں میں زیرِ علاج رہ کر صحت یاب ہوئے یا جانبر نہ ہوسکے۔
مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ جن مریضوں کو صرف 'ہائیڈروکسی کلوروکوئن' دی گئی اُن کی اموات کی شرح 28 فی صد تھی۔ جن مریضوں کو یہ دوا 'ایزتھرو مائسین' کے ساتھ دی گئی اُن کی اموات کی شرح 22 فی صد تھی۔
رپورٹ کے مطابق اس کے برخلاف جن مریضوں کو ان ادویات کے بجائے معمول کی طبی امداد دی گئی اُن کی اموات کی شرح صرف 11 فی صد تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عام طور پر یہ ادویات زیادہ بیمار مریضوں کو دی گئیں۔ لیکن دیگر مریضوں کو بھی یہ دوا دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس سے اموات میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
البتہ اس مطالعے پر سوالات بھی اُٹھائے جا رہے ہیں کہ اس میں سروے کے مروجہ اُصولوں کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا اور مریضوں کی درجہ بندی نہیں کی گئی۔
'اے ایف پی' کے مطابق تاحال اس رپورٹ کو عام نہیں کیا گیا ہے کیوں کہ تحقیق کے لیے 65 سال سے زائد عمر کے زیادہ تر سیاہ فام افراد کا ہی انتخاب کیا گیا تھا جن میں سے بیشتر دل اور ذیابیطس کے مریض بھی تھے۔
لہذٰا ماہرین کا کہنا ہے کہ ان افراد کی موت میں نظامِ تنفس میں خرابی کے علاوہ بھی دیگر وجوہات کا دخل ہوسکتا ہے۔
'ہائیڈروکسی کلوروکوئن' کئی دہائیوں سے ملیریا کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ البتہ کرونا وائرس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں میں اس دوا کا استعمال تاحال جاری ہے۔
اس سے پہلے ہونے والی تحقیق میں طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دوا وائرس کو انسانی خلیوں میں پھیلنے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ البتہ اسے کرونا وائرس کا علاج قرار نہیں دیا گیا تھا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دوا کی افادیت سے متعلق حتمی رائے اسی وقت قائم کی جا سکتی ہے، جب بڑے پیمانے پر کوئی تحقیق ہو اور زیادہ لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے۔
امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں اس حوالے سے ریسرچز کی جا رہی ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں وقت لگے گا۔