امریکہ کے مختلف شہروں میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعرات کو فلائیڈ کی یاد میں تقاریب کا اہتمام کیا گیا جن میں کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپولس میں فلائیڈ کی یاد میں ہونے والی مرکزی تقریب میں انہیں ایک اچھے باپ اور 'فیملی مین' کے عنوان سے یاد کیا گیا۔
منیاپولس کی نارتھ سینٹرل یونیورسٹی میں ہونے والی اس تقریب میں منی سوٹا کی سینیٹر ایمی کلوبچر اور امریکی کانگریس کے متعدد ارکان کے علاوہ کئی نامور شخصیات نے بھی شرکت کی۔
تقریب میں شریک لوگوں نے جارج فلائیڈ کی یاد میں آٹھ منٹ 46 سیکنڈز کی خاموشی اختیار کی۔ یہ دورانیہ اتنا تھا، جتنے وقت کے لیے 25 مئی کو پولیس افسر ڈیریک چاون نے جارج فلائیڈ کی گردن کو گھٹنے سے دبائے رکھا تھا۔
شہری حقوق کے رہنما ریورنڈ شارپٹن نے جارج فلائیڈ کو ان الفاظ میں یاد کیا: "جارج فلائیڈ کی کہانی تمام سیاہ فام لوگوں کی کہانی ہے۔ کیوں کہ گزشتہ 401 سال سے ہم اپنے خواب صرف اس لیے پورے نہیں کر سکے کیوں کہ آپ نے اپنا گھٹنا ہماری گردنوں پر رکھا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جارج کے نام پر اٹھ کھڑے ہوں اور کہیں کہ ہماری گردنوں کو آزاد کرو۔"
جارج فلائیڈ کے بھائی فلونیز فلائیڈ بھی تقریب میں شریک تھے۔ انہوں نے جارج کے ساتھ بچپن میں گزرے وقت کو یاد کیا۔
منیاپولس کے علاوہ نیو یارک کے علاقے بروکلن میں بھی ایک یادگاری تقریب منعقد کی گئی جس میں جارج فلائیڈ کے ایک اور بھائی ٹیرنس فلائیڈ نے شرکت کی۔
خیال رہے کہ جمعرات کو جارج فلائیڈ کی یاد میں منعقد کی جانے والی اس نوعیت کی تقاریب کا یہ پہلا دن تھا۔ جارج کی یاد میں چھ دن تک مختلف تقاریب شیڈول کی گئی ہیں جو اب مزید پانچ روز جاری رہیں گی۔
جمعرات کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع کیپیٹل ہل کی عمارت میں ڈیموکریٹک سینیٹرز نے بھی جارج فلائیڈ کی یاد میں آٹھ منٹ اور 46 سیکنڈز کی خاموشی اختیار کی۔
دوسری جانب امریکہ کے مختلف شہروں میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف مظاہرے دسویں روز بھی جاری رہے۔ نیو یارک شہر میں کرونا وائرس کے خلاف لڑنے والے طبّی عملے نے بھی جارج فلائیڈ کے حق میں احتجاج کیا۔
نیو یارک کے چھ اسپتالوں کے طبی عملے نے فیس ماسکس اور حفاظتی لباس پہن کر امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ انہوں نے مختلف بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے جن پر "صحت کی سہولت سب کے لیے" اور نسل پرستی میرے مریضوں کو مار رہی ہے" کی عبارتیں درج تھیں۔
مظاہرے میں شریک ایک ڈاکٹر اور احتجاج کی منتظم کامنی ڈوبے نے کہا کہ ہم نے تمام کمیونٹیز کی خدمت کا حلف لیا ہے، ہم نے عوام کی صحت کی حفاظت کا حلف لیا ہے۔ لیکن اب طاقت کا استعمال اور پولیس کے مظالم ہی عوام کی صحت کے لیے ایمرجنسی ہیں۔
مظاہرے میں شریک ایک نرس بِلی جین نے کہا کہ میں شعبۂ صحت سے وابستہ ایک پیشہ ور نرس ہوں اور کرونا وائرس کے خلاف برسرِ پیکار ہوں۔ میں نسل پرستی کے وائرس کے خلاف لڑائی بھی جاری رکھنا چاہتی ہوں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مظاہروں میں شریک 10 ہزار سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر لوٹ مار اور تشدد کی کارروائیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
دوسری جانب کچھ بڑے شہروں بشمول لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور سیاٹل سے رات کا کرفیو ختم کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان علاقوں میں جہاں پرتشدد مظاہروں کا خدشہ موجود ہے وہاں کرفیو بھی بدستور برقرار ہے اور نیشنل گارڈز بھی تعینات ہیں۔