امریکہ کا یومِ آزادی کرونا وائرس کی وبا کے دوران ایک بڑے ملک کی بڑی آبادی کیلئے حوصلے اور ضبط کا پیغام ہے۔
امریکہ وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر سے آئے لوگوں کی اکثریت نے زندگی کی بہتر تصویر دیکھی۔ اسے بہتر مواقع کی سرزمین کہا۔ ایک ایسا ملک جہاں دنیا بھر کے رنگ و نسل کا امتزاج موجود ہے۔ اور جہاں روزگار کے مواقع ہر اس شخص کیلئے موجود ہیں جو اہلیت رکھتا ہے۔ آگے بڑھنا چاہتا ہے اور قانونی طور پر اس سرزمین پر موجود ہے۔ ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کو اس سے مکمل اتفاق نہ ہو اور ان کا تجربہ مختلف ہو تو ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔
ڈاکٹر زاہد بخاری امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور سنٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے "فاؤنڈنگ فادرز" نے خود اسے ایک "امپرفیکٹ یونین " قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں خامیاں موجود ہیں۔۔اور وہ خامیاں آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن وہ کہتے ہیں یہ امریکہ کی خوبی ہے کہ وہ اقلیتوں کی شکایات اور نسلی امتیاز کے واقعات کے باوجود ایک ایسا نظام رکھتا ہے جو نئے گروپ کو سمو لیتا ہے اور اس کی گنجائش امریکہ کے انہیں "فاؤنڈنگ فادرز "نے چھوڑی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ لوگ یہاں آئیں اور اس ملک کو فائدہ پہنچائیں۔
مگر وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ مشکلات بھی ہیں، پابندیاں بھی ہیں مگر قانون کی حکمرانی ہے اور شہری آزادیوں سے تارکینِ وطن کے انہی گروپوں کو بہت فائدہ بھی پہنچا ہے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
شکاگو اسٹیٹ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ اور انٹرنیشنل بزنس کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ اگر تارکینِ وطن کو زندگی کے لئے بہتر مواقع دیتا ہے تو دنیا بھر سے آئے لوگ اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے اس ملک کو فائدہ بھی پہنچاتے ہیں۔ وہ کام کرتے ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں اور پھر اگر وہ اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں تو اس سے بھی ملازمت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس ملک کے معاشی نظام سے ان کا رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتاہے۔
دنیا کی اس سب سے بڑی معیشت میں جہاں کاروبار کے مواقع موجود ہیں، وہیں ایک عام شہری خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو۔ امریکی شہریت رکھتا ہے تو اسے ہر شہری آزادی اور تمام شہری حقوق بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں آزادی اظہار کے بعد امریکی مسلمانوں نے سب سے زیادہ سہولت آزادی مذہب میں محسوس کی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے گروپ بنائے، خود کو منظم کیا، مسجدیں بنائیں اور اپنے مذہبی فرائض پوری آزادی سے ادا کئے ہیں۔
ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں وہ 1983 میں امریکہ آئے تھے۔ اور یہیں انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ مختلف یونیورسٹیوں میں پروفیسر بھی رہے اور مسلمانوں کے بہت سے سینٹرز کے ڈائریکٹر بھی رہے اور آج بھی ہیں اور اس دوران انہوں نے مختلف ادوار دیکھے جن میں ایک دور نائن الیون کے بعد کا بھی شامل ہے جب کئی سال تک مسلمانوں کو خاص طور پر پریشانی کا سامنا رہا، گرفتاریاں بھی ہوئیں، پیٹریاٹک ایکٹ بھی بنا۔ بہت لوگوں کو ملک سے جانا بھی پڑا مگر پھر بھی گذشتہ کچھ دہائیوں کا جائزہ لیجئے تو مساجد کی تعداد بھی بڑھی ہے اور مساجد میں جانے والوں کی بھی۔ اور مسلمانوں نے خود کو سیاسی وابستگی میں بھی مضبوط کیا ہے۔
نسلی امتیاز کے خلاف امریکہ میں حالیہ تحریک کے بارے میں ڈاکٹر زاہد بخاری کا کہنا ہے کہ یہ امریکی نظام کی خوبصورتی ہے کہ یہاں ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مقامی امریکی ہی نہیں بلکہ ان میں دیگر ملکوں سے یہاں آ کر آباد ہونے والے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور اسی طرح نسلی امتیاز کے خلاف تحریک میں مسلمان بھی شامل ہیں۔
سینٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کہتے ہیں اگر آپ نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں، قانون کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو امریکہ کے نظام میں اتنی لچک موجود ہے کہ اگر اس کے خلاف آواز بلند کی جائے تو اسے سنا جاتا ہے۔ ڈاکٹر زاہد بخاری نے کہا یہی چیک اینڈ بیلنس ہے جس کے بارے میں ایک امریکی جج نے کہا تھا جب کسی طبقے کے حقوق ہم سلب کرتے ہیں اور کوئی قومی ہنگامی حالت پیدا ہوتی ہے تو ہم معذرت بھی کرتے ہیں۔
شکاگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں کہ امریکہ کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ یہاں کی حکومت کو "بزنس فرینڈلی" حکومت کہا جا سکتا ہے جو ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جو کاروبار کرنا چاہتے ہیں، خاص طور پر چھوٹے کاروباروں کیلئے مواقع زیادہ ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 1980 میں وہ اسکالرشپ پر امریکہ آئے تھے پھر یہیں ایم بی اے اور ڈاکٹریٹ کی اور اب ایک عرصے سے شکاگو یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ میں اگر کوئی بہتر مقام حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے امریکہ آ کر تعلیم ضرور حاصل کرنی چاہئے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکہ کی معیشت ایسی ہے کہ دیگر ممالک نے اس کے ماڈل کو اپنا کر اپنی معیشت کو بہتر بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی معیشت میں ایک خوبصورت بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وبا جیسے مخدوش حالات میں بھی یہاں جون کے مہینے میں چار اعشاریہ آٹھ ملین ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق لوگوں کو ان کی پرانی ملازمتیں واپس بھی ملی ہیں۔
امریکہ ایک بڑا ملک ہے، دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور انتہائی مضبوط جمہوریت۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کو شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی طوفان آئے یا زلزلہ امریکہ امداد ضرور روانہ کرتا ہے۔ اس کرونا وائرس کی وبا میں بھی اس نے دیگر ملکوں کو امداد کی پیشکش کی ہے۔
ڈاکٹر ظفر بخاری کہتے ہیں لوگ امریکہ کو اس کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں فائدہ یا نقصان یا حمایت یا مخالفت کی بات ہو سکتی ہے۔ مگر امریکہ کو بحیثیت ایک ملک دیکھئے تو یہ ایک ایسا ملک ہے جس کی معیشت بہت مضبوط ہے اور اس کے ثمرات ایک عام آدمی تک باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔
یہی ثمرات ہیں جن کے حصول کیلئے لوگ دنیا بھر سے امریکہ آنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ یہاں وہ مشکلات کا سامنا کرنے کو بھی تیار ہو جاتے ہیں، قانون کی پابندی بھی کرتے ہیں اور محنت بھی، اور ہمارے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ کا سسٹم آف گورننس دنیا بھر کے ملکوں کیلئے ایک مثال ہے جو یہاں آکر بسنے والوں کو بھی ثمر بار کرتا ہے۔
یہ رپورٹ گزشتہ برس امریکہ کے یوم آزادی پر شائع کی گئی۔ امریکہ کے 246ویں یوم آزادی پر اسے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔