سعودی عرب کے 84 سالہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اسپتال میں داخل ہیں جہاں آپریشن کرکے ان کا پتا نکال دیا گیا ہے۔
خادم حرمین شریفین کے نام سے یاد کیے جانے والے سعودی بادشاہ کو پتے میں سوزش کی شکایت پر پیر کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ سرکاری خبر رساں ادارے، ایس پی اے کے مطابق اسپتال میں مزید چند دن ان کی دیکھ بھال کی جائے گی۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیز 2015 میں اپنے بھائی شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعد سعودی عرب کے حکمران بنے تھے۔ اس سے پہلے وہ ڈھائی سال تک ولی عہد اور پچاس سال تک ریاض کے گورنر رہے تھے۔
شاہ سلمان نے منگل کو اسپتال سے ویڈیو لنک پر کابینہ اجلاس کی صدارت کی تھی۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ڈیسک کے پیچھے بیٹھے دستاویزات کا معائنہ کررہے ہیں۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ولی عہد محمد بن سلمان کو جمعرات کو فون کیا اور ان کے والد کی خیریت دریافت کی۔ صدر ٹرمپ نے شاہ سلمان کی جلد صحت یابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ ایس پی اے کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے علاقائی اور عالمی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
شاہ سلمان کے بیٹے 34 سالہ محمد بن سلمان کو مملکت کا ڈی فیکٹو حکمران سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے ملک میں کئی اصلاحات متعارف کرائی ہیں، رجعت پسند معاشرے میں سماجی پابندیوں کو نرم کیا ہے اور خواتین کو زیادہ حقوق دیے ہیں جس پر انھیں سراہا جاتا ہے اور وہ بہت سے سعودی نوجوانوں میں مقبول ہیں۔
مملکت میں عشروں کے جمود کے بعد ان تبدیلیوں کو شاہ سلمان کے حامیوں کے لیے خوش آئند قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب، ذرائع ابلاغ پر سخت کنٹرول اور مخالفین کے خلاف کارروائیوں کے باعث اس بات کا اندازہ لگانا دشوار ہے کہ مقامی طور پر لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔
سعودی ولی عہد نے ایک طرف اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ لیکن دوسری جانب، شاہی خاندان کی کئی شخصیات اور کاروباری افراد کو بدعنوانی کے الزام پر سزائیں دی ہیں اور یمن کے خلاف جنگ چھیڑی ہے جس نے ان کے مغربی اتحادیوں اور سرمایہ کاروں کو پریشان کیا ہے۔
محمد بن سلمان کی شہرت کو 2018 میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے قتل سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ خشوگی کو ترکی کے سعودی سفارت خانے میں ان سعودی اہلکاروں نے مبینہ طور پر ہلاک کیا جو محمد بن سلمان کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔