رسائی کے لنکس

اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے ماضی کی کوششوں پر ایک نظر


فلسطینی لیڈر یاسر عرفات، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور امریکی صدر بل کلنٹن،، کیپ ڈیوڈ میں مشرق وسطی امن مذاکرات کے دوران۔ 11 جولائی 2000 (فائل فوٹو)
فلسطینی لیڈر یاسر عرفات، اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک اور امریکی صدر بل کلنٹن،، کیپ ڈیوڈ میں مشرق وسطی امن مذاکرات کے دوران۔ 11 جولائی 2000 (فائل فوٹو)

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امریکہ کے تعاون سے تاریخی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات کی مکمل بحالی کے علاوہ تجارت اور دفاع سمیت دیگر شعبوں میں تعلقات کو بھی فروغ دیں گے۔

متحدہ عرب امارات پہلا خلیجی عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ اس سے قبل مصر اور اُردن وہ عرب ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کر رکھے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے ملکوں میں سفارت خانے کھولنے کے علاوہ صحتِ عامہ، دفاع، سیاحت، ٹیلی کمیونی کیشن سمیت دیگر شعبوں میں بھی آنے والے دنوں میں معاہدے کریں گے۔

اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حل میں ناکامی کی وجہ سے اسرائیل کے دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں تناؤ اور بداعتمادی رہی ہے۔ تاہم ماہرین اس معاہدے کو تاریخی قرار دے رہے ہیں۔

متحدہ عرب امارات سمیت کئی عرب ملکوں کو اسرائیل سے یہ گلہ رہا ہے کہ وہ آزاد فلسطین ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی عرب ممالک نے تاحال اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان 1967 میں ہونے والی جنگ کے بعد اقوامِ متحدہ، امریکہ اور دیگر طاقت ور ملکوں کے تعاون سے قیامِ امن کی کئی کوششیں ہوئیں لیکن فریقین کے مابین اختلافات کی وجہ سے یہ کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔

اس تنازع کے حل کے لیے 1967 کے بعد سے ہونے والی ان کوششوں کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔

اسرائیل فلسطین امن منصوبے پر واشنگٹن میں ردِ عمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

سیکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 242 (1967)

اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان چھ روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد سیکیورٹی کونسل نے اپنی قرارداد نمبر 242 میں اسرائیل سے جنگ کے دوران قبضے میں لیے گئے علاقے خالی کرنے کا کہا تھا۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ خطے کے تمام ممالک ایک دوسرے کی آزادی، خود مختاری اور سالمیت کا خیال رکھیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سیکیورٹی کونسل کی اس قرارداد میں ابہام کی وجہ سے اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہو سکا اور آنے والی کئی دہائیوں تک یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہوتا گیا۔

قرارداد میں یہ واضح نہیں تھا کہ اسرائیل کو تمام علاقے خالی کرنے کا کہا گیا ہے یا صرف چند علاقوں سے انخلا پر زور دیا گیا ہے۔

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ (1978)

اسرائیل اور مصر کے درمیان کیمپ ڈیوڈ میں امریکہ کے تعاون سے ایک امن معاہدہ طے پایا۔

کیمپ ڈیوڈ امریکہ کی ریاست میری لینڈ کا وہ پرفضا مقام ہے جہاں امریکی صدر تعطیلات گزارتے ہیں۔

امریکی صدر کا یہ کیمپ آفس عالمی سمجھوتوں اور معاہدوں کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے۔

معاہدے کے تحت اسرائیل اور مصر خطے میں قیامِ امن کے لیے ایک طریقہ کار پر متفق ہو گئے تھے جس میں اسرائیل کی جانب سے 1967 کی عرب، اسرائیل جنگ کے دوران مصر کے صحرائے سینا سے مرحلہ وار انخلا بھی شامل تھا۔

معاہدے میں مغربی کنارے اور غزہ میں ایک عبوری فلسطینی حکومت کے قیام پر بھی اتفاق کیا گیا تھا۔

امریکہ کے صدر جمی کارٹر، مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم
امریکہ کے صدر جمی کارٹر، مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم

اسرائیل، مصر امن معاہدہ (1979)

کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے تناظر میں پیش رفت کرتے ہوئے مصر نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا اور دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ اسرائیل تین سال کے اندر صحرائے سینا کا علاقہ خالی کرنے پر رضا مند بھی ہو گیا تھا۔

معاہدے کی وجہ سے مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیل کے وزیر اعظم مناخم بیگن کو 1978 میں مشترکہ طور پر امن کا نوبیل انعام دیا گیا۔

معاہدے کے دو سال بعد انور سادات کو ایک فوجی پریڈ کے دوران قاہرہ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

میڈرڈ سمٹ (1991)

اسرائیل نمائندوں اور فلسطینی عوام کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نمائندوں پر مشتمل فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے اعلٰی عہدے داروں نے ایک امن کانفرنس میں شرکت کی۔

اس کانفرنس میں کوئی سمجھوتہ تو طے نہ پا سکا لیکن فریقین کے درمیان براہِ راست رابطوں کی راہ ہموار ہو گئی تھی۔

اسرائیل، اُردن معاہدہ (1994)

اُردن اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرنے والا عرب دُنیا کا دوسرا ملک ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان طے پانے والے امن سمجھوتے کو اردن میں فلسطین نواز حلقوں نے پسند نہیں کیا اور اب بھی اس پر اردن میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

اس کے بعد 1995 میں اسرائیل اور فلسطینی نمائندوں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں براہِ راست مذاکرات کیے۔

مذاکرات کے نتیجے میں عبوری امن سمجھوتہ طے پا گیا جس کے تحت فلسطین کی عبوری حکومت جب کہ غزہ اور مغربی کنارے میں پانچ سال کے لیے منتخب کونسل کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔

معاہدے میں مغربی کنارے اور غزہ سے اسرائیلی فوج کے انخلا اور نئی آباد کاری پر مذاکرات پر بھی اتفاق کیا گیا۔

کیمپ ڈیوڈ سمٹ (2000)

سن 2000 میں اس وقت امریکہ کے صدر بل کلنٹن نے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم ایہود بارک کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا لیکن یہ ملاقات نتیجہ خیز نہ ہو سکی۔

بش اعلامیہ (2002,2003)

سن 2002 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے الگ فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا۔ وہ ایسا اعلان کرنے والے امریکہ کے پہلے صدر تھے۔

اس تجویز میں کہا گیا کہ اسرائیل اور فلسطین دو الگ الگ ریاستیں ہوں گی تاکہ خطے میں امن کا قیام یقینی بنایا جا سکے۔

سن 2002 میں ہی سعودی عرب نے عرب لیگ کی منظوری کے بعد اسرائیل، فلسطین تنازع کا حل پیش کیا۔

اس منصوبے کے تحت اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں سے اسرائیلی فوج کے مکمل انخلا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی تجویز دی گئی۔ تاہم امریکہ، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور روس نے اس تنازع کے حل کے لیے اپنا اپنا روڈ میپ دیا۔

تنازع فلسطین کے حل کے لیے 2007، 2009، 2013 میں بھی امریکہ اور یورپی ممالک کی معاونت سے کوششیں ہوتی رہیں۔ تاہم اختلافات کی وجہ سے یہ کوششیں بار آور نہ ہو سکیں۔

صدر ٹرمپ کا معاشی منصوبہ (2019)

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل کے لیے ایک معاشی منصوبے کا اعلان کیا جس کے روح رواں اُن کے داماد جیراڈ کشنر تھے۔

اس منصوبے کے تحت اُنہوں نے فلسطین اور ہمسایہ عرب ملکوں کی معاشی ترقی کے لیے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا لیکن فلسطینی رہنماؤں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے گزشتہ برس عندیہ دیا تھا کہ وہ دوبارہ وزیرِ اعظم منتخب ہو کر مقبوضہ غربِ اردن کو اسرائیل میں ضم کر لیں گے۔

فلسطین سمیت کئی عرب ممالک نے اسرائیلی وزیرِ اعظم کے اس منصوبے کی مذمت کی تھی۔

بیشتر عرب ملکوں کا یہ اصرار رہا ہے کہ ان سب کوششوں میں سے بہتر حل 2002 میں سعودی عرب کی جانب سے پیش کیا گیا منصوبہ ہے۔ لہذٰا تمام فریقوں کو اس پر متفق ہونا چاہیے۔

اسرائیل اور عرب امارات کے درمیان معاہدہ کیا ہے؟

امریکی جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ عرب ممالک کو اسرائیل کے قریب لا کر خطے میں ایران کو تنہا کر سکے۔

اسرائیل، امارات معاہدے کے بعد امریکی محکمۂ خارجہ کے خصوصی نمائندہ برائے ایران برائن ہک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک کے مراسم کسی خوفناک خواب سے کم نہیں ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کے تحت امریکہ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غرب اردن کے علاقے کو ضم کرنے کے منصوبے پر عمل نہ کرے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابوظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا جس کے بعد معاہدے کی راہ ہموار ہوئی۔

امریکی حکام کے مطابق اس معاہدے کو 'ابراہام معاہدہ' کہا جائے گا۔ امریکہ کے صدر نے اس معاہدے کو بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔

امریکہ میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف العتیبہ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن کو ضم کرنے سے روکے گا جس سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ تھا۔

معاہدے کے تحت دونوں ملک آنے والے دنوں میں باہمی تعلقات کو فروغ دینے اور ایک دوسرے کے شہریوں کے میل جول کے لیے سیاحت، ثقافت اور تجارت سمیت دیگر شعبوں میں وسعت دیں گے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فلسطین، ایران اور دیگر خلیجی ملک اس معاہدے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ لہذٰا اس کی کامیابی کے حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا۔

XS
SM
MD
LG