رسائی کے لنکس

ایران نے مشرقی شام میں اپنی عسکری موجودگی میں اضافہ کر دیا


شام کے مشرقی علاقے میں ایک بچہ ایران کے پرچم کے ساتھ ایک فوجی ٹرک پر سوار ہے۔ فائل فوٹو
شام کے مشرقی علاقے میں ایک بچہ ایران کے پرچم کے ساتھ ایک فوجی ٹرک پر سوار ہے۔ فائل فوٹو

ال فاطمیون بریگیڈ، افغان شیعہ ملیشیا ہے، جس کی سرپرستی ایران کرتا ہے۔ ال زینبیون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی شیعہ گروپ ہے، اور یہ دونوں شام میں جاری خانہ جنگی میں سرگرم ہیں۔

ایران کی افواج مشرقی شام کے چند علاقوں میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھا رہی ہیں ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے دہشت گرد گروپ داعش کی باقیات کے خلاف لڑائی میں امریکی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

شام کے صدر بشار ال اسد کی حکومت کے زبردست حامی، ایران کو مشرقی شام کے صوبے دیر الزور کے چند علاقوں پر کنٹرول حاصل ہے۔ ان میں خاص طور پر وہ حصے شامل ہیں جو عراق کی سرحد سے متصل ہیں۔ ایران کی پاسداران انقلاب فورس نے سن 2011 میں ملک میں جاری خانہ جنگی کے آغاز سے ہی ہزاروں غیر ملکی اور مقامی افراد کی مدد سے شام کے بڑے علاقے پر اپنا قبضہ قائم کیا ہوا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے کی وجہ سے، امریکہ نے سن 2019 میں پاسدارانِ انقلاب کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

بھرتیاں

مقامی میڈیا کے مطابق، ایران نے حالیہ ہفتوں میں صوبہ دیر الزور میں مقامی افراد کو اپنی ملیشیا میں بھرتی کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

سپاه پاسداران انقلاب اسلامی ایران، فائل فوٹو
سپاه پاسداران انقلاب اسلامی ایران، فائل فوٹو

مشرقی شام میں ہونے والی پیش رفت پر نظر رکھنے والے دیرازور ٹوینٹی فور نامی خبریں دینے اور تحقیق کرنے والے گروپ کے ڈائریکٹر عمر ابولیلی کا کہنا ہے کہ ال فاطمیون اور ال زینبون جیسی غیر ملکی شیعہ ملیشیاؤں کے ساتھ ساتھ، ایران نے مقامی شامی شہریوں کو بھی شام میں سرگرم ملیشیاؤں میں شامل کرنا شروع کر دیا ہے۔

عمر ابولیلی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ملیشیا فورس میں شامل ہونے والوں کو ایران دو سو ڈالر ماہانہ ادا کرتا ہے، اور شام کے بہت سے شہریوں نے ایرانی سرپرستی والی فورس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔

نئے بھرتی ہونے والے زیادہ تر افراد مشرقی شام میں باقر بریگیڈ کے بینر تلے لڑ رہے ہیں۔ اس بریگیڈ کو ایران نے خانہ جنگی کے آغاز پر بنایا تھا۔

روس اور شام کی سرکاری افواج کا صوبہ دیرالزور کی بڑی آبادیوں پر قبضہ ہے۔ ایران کا قبضہ، دریائے فرات کے مغربی کنارے پر آباد چھوٹے قصبوں پر ہے، جو کہ زیادہ تر عراق کی سرحد کے قریب ہیں اور ان میں عراق کے ساتھ ایک سٹریٹیجک سرحدی گزر گاہ بھی شامل ہے۔

کمزور استحکام

امریکہ کی زیر سرپرستی سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کا سن 2019 میں داعش کو شکست دینے کے بعد، دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر کنٹرول ہے۔

تاہم مشرقی شام میں، ایس ڈی ایف کے زیر قبضہ علاقے میں، یہ فورس داعش کے سلیپر سیلز اور دیگر مسلح گروپوں کا نشانہ بناتی رہی ہے۔

ایس ڈی یف نے شام کی حکومت اور اس کے ایرانی اتحادیوں پر یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ وہ ان علاقوں میں، جو ماضی میں داعش کے زیر قبضہ تھے، انتشار اور عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔

ایک عسکری شیعہ گروپ اپنے ہتھیار لہرا کر نعرے لگا رہا ہے۔ فائل فوٹو
ایک عسکری شیعہ گروپ اپنے ہتھیار لہرا کر نعرے لگا رہا ہے۔ فائل فوٹو

ایس ڈی ایف کے ایک سینئر عہدیدار نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ گروپ مشرقی شام میں ایس ڈی ایف کے زیر قبضہ علاقوں میں استحکام کیلئے خطرہ بن رہا ہے۔

اس عہدیدار نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور اس کے اتحادیوں نے ایس ڈی ایف اور امریکیوں کے خلاف مقامی قبائل کو ابھارنے کیلئے، دیر الزور میں عرب النسل قبائلی لیڈروں کو قتل کیا ہے، اور اس مقصد کیلئے پاسدارانِ انقلاب نے نئے افراد کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ ان افراد کو بھی بھرتی کیا ہے جو پہلے داعش کیلئے لڑ چکے ہیں۔

جیو سٹریٹیجک اہمیت

ماہرین کا کہنا ہے کہ مشرقی شام میں ایران کے زیر قبضہ علاقہ جیو سٹریٹیجک اہمیت کا حامل ہے، جو مشرق وسطیٰ میں اس کے توسیع پسندانہ مقاصد کو فروغ دیتا ہے۔

واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی سے وابستہ محقق فلپ سمتھ کہتے ہیں کہ ایرانی اس کو ایک ایسا علاقہ سمجھتے ہیں جو ان کی شام کے ذریعے لبنان میں ان کی موجودگی کو تحفظ دیتا ہے اور عراق کیلئے حمایت میں بھی تقویت دیتا ہے۔

سمتھ کہتے ہیں کہ یوں ایرانیوں کا خیال ہے کہ اس سے مستقبل میں امریکہ کیلئے عراق میں ایرانیوں کی موجودگی کو غیر موثر بنانا مشکل ہو جائے گا۔

اسرائیل کیلئے خطرہ

شام میں ایرانی فوج کی موجودگی کو، اسرائیل اپنی قومی سلامتی کیلئے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے بعض اوقات مشرقی شام میں ایرانی اہداف پر فضائی حملے بھی کیے ہیں۔

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے اس نے شام میں ایران کے حمایت یافتہ اہداف کے خلاف فضائی کاروائیاں کی تھیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران، اسرائیل کو دھمکانے کیلئے، عراق سے مشرقی شام، پھر دمشق اور پھر گولان کی پہاڑیوں تک بری راستہ بنانے کا خواہاں ہے۔

کیا شام میں 7 سال سے جاری تنازعہ کا کوئی حل ممکن ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:30 0:00

یروشلم میں مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ایک ماہر سیتھ فرانٹز مین کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کیلئے ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے، کیونکہ ایران اس علاقے میں ڈرون اور اہداف کو درستگی کے ساتھ نشانہ بنانے والے میزائل نصب کر سکتا ہے۔

انہوں نے وی او اے کو بتایا کہ ایران نے میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اور وہ اس علاقے میں اسلحہ لا کر اسرائیل کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG