رسائی کے لنکس

'پاکستان مخالف پروگرام'، بھارتی نیوز چینل پر برطانیہ میں 20 ہزار پاؤنڈ جرمانہ


برطانوی ٹیلی ویژن ریگولیٹری اتھارٹی 'آف کام' نے بھارت کے معروف صحافی ارنب گوسوامی کے ہندی نیوز چینل ری پبلک پر مبینہ طور پر پاکستان کے خلاف نفرت انگیز مواد پیش کرنے پر 20 ہزار پاؤنڈ جرمانہ عائد کیا ہے۔

'پوچھتا ہے بھارت' نامی پروگرام گزشتہ سال چھ ستمبر کی شب نو بجے نشر کیا گیا تھا۔

'آف کام' ٹیلی ویژن نشریات، ٹیلی مواصلات اور پوسٹل صنعت پر نظر رکھنے والا برطانوی حکومت کا منظور شدہ ادارہ ہے۔

آف کام نے برطانیہ میں ری پبلک بھارت نیوز چینل دکھانے والے ادارے "ورلڈ وائڈ میڈیا نیٹ ورک لمٹیڈ" کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس کی رپورٹ سے متعلق بیان نشر کرے اور مذکورہ پروگرام کو دوبارہ نہ دکھائے۔

'آف کام' کا کہنا ہے کہ ری پبلک بھارت کے 'پوچھتا ہے بھارت' پروگرام نے جس کے میزبان ارنب گوسوامی ہیں، ریگولیٹری اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ارنب گوسوامی کی جانب سے چھ ستمبر 2019 کو پیش کیے جانے والے اس پروگرام میں پاکستانی عوام پر مسلسل اور بار بار حملہ کیا گیا۔ یہ پروگرام 22 جولائی 2019 کو بھارت کے چندریان 2 کے خلا میں بھیجنے سے متعلق تھا۔

'آف کام' کے مطابق اس پروگرام میں بھارت اور پاکستان کے خلائی پروگراموں اور ان کی صلاحیتوں کا موازنہ کیا گیا تھا۔ اس میں ارنب گوسوامی کے علاوہ تین بھارتی اور تین پاکستانی تجزیہ کار تھے۔

ارنب گوسوامی کو کچھ عرصہ قبل بھارتی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔
ارنب گوسوامی کو کچھ عرصہ قبل بھارتی پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب بھی پاکستانی مہمان کسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا تو اینکر اور بھارتی تجزیہ کار بلند آواز میں چلا کر ان کی آواز دبا دیتے۔

رپورٹ کے مطابق پروگرام کے دوران ارنب گوسوامی اور بھارتی تجزیہ کاروں نے پاکستانی عوام پر دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کیا۔

چینل کے کنسلٹنگ ایڈیٹر گورو آریہ نے کہا کہ "پاکستان کے تمام سائنس دان، ڈاکٹر، لیڈر، سیاست دان دہشت گرد ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے کھلاڑی بھی دہشت گرد ہیں۔ پورا ملک دہشت گرد ہے۔"

آف کام کے مطابق "پروگرام کے دوران اینکر اور مہمانوں کی جانب سے کیے جانے والے تبصرے پاکستانی عوام کے خلاف نفرت انگیز مواد اور گالی گلوچ کے زمرے میں آتے ہیں۔"

ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس وقت بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کیے جانے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں کشیدگی بڑھ گئی تھی اور ماحول میں زبردست تناؤ تھا۔

ری پبلک ٹی وی نے فروری میں ملنے والے نوٹس کے جواب میں کہا تھا کہ "اگرچہ وہ مباحثہ بہت جذباتی ماحول میں ہوا تھا، لیکن پروگرام نفرت یا دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والا یا اس کو کسی بھی طرح جائز قرار دینے والا نہیں تھا۔"

ایک سینئر تجزیہ کار اور میڈیا مواد پر نظر رکھنے والے صحافی ایم ودود ساجد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "اگر پاکستان بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے تو ہم اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔ لیکن ارنب گوسوامی کے نیوز چینلز کے طریقۂ کار کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔"

ودود ساجد نے کہا کہ "پاکستان کی بات چھوڑیے، ارنب گوسوامی نے بھارت کے خلاف کیا کم گفتگو کی ہے۔ انہوں نے معاشرے کے کسی بھی طبقے کو نہیں بخشا۔ مسلمانوں کو تبلیغی جماعت کے حو الے سے گالیاں دیں، پال گھر قتل معاملے میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔"

ان کے مطابق "ارنب گوسوامی کا کوئی بھی پروگرام لڑائی جھگڑے اور اشتعال انگیزی سے خالی نہیں ہوتا۔"

انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں ان پر جو جرمانہ عائد کیا گیا ہے، وہ بھارت میں بھی عائد کیا جانا چاہیے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں استاد ڈاکٹر انل دت مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کوئی بھی نیوز چینل ہو، سب کو اخلاقیات کا پابند اور غیر جانب دار ہونا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کسی نیوز چینل پر جانب دار ہونے کا الزام لگتا ہے تو اسے اس پر غور کرنا چاہیے کہ آخر اس پر ایسا الزام کیوں لگایا جا رہا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھارتی میڈیا ایک بحران سے گزر رہا ہے اور اسے اس پر توجہ دینی چاہیے۔

یاد رہے کہ 'ری پبلک ٹی وی' پر اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنے کے الزام پر چینل کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کو پولیس نے گرفتار کر لیا تھا۔

ارنب گوسوامی کو بھی ایک شخص کو خودکشی کے لیے اکسانے کے 2018 کے ایک معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت ضمانت پر ہیں۔ ان پر مودی حکومت کی بے جا حمایت اور اپوزیشن پر جارحانہ حملے کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG