افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والے طالبان جنگجوؤں سمیت دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث افراد کو پھانسی دینا ہی مسئلے کا حل ہے۔
افغان نائب صدر کا یہ تازہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اتوار کو کابل میں سپریم کورٹ کی دو خواتین ججز کو فائرنگ کے ایک واقعے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔
امراللہ صالح نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ طالبان قیدیوں کی رہائی سے اُنہیں یہ تاثر ملا ہے کہ اگر ان حملوں میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا تو انہیں معافی دے دی جائے گی۔ نائب صدر نے کہا کہ اس تاثر کی وجہ سے ملک میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے پرتشدد واقعات کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہدف بنا کر قتل کرنے کے واقعات میں ملوث طالبان کو پھانسی دینی چاہیے اور اس مسئلے کا یہی واحد حل ہے۔
امراللہ صالح کا کہنا تھا کہ ہمارے بہادر سیکیورٹی اداروں نے حالیہ عرصے میں بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔ کیوں کہ 5500 طالبان دہشت گردوں کی رہائی کے بعد انہیں بھی یہ حوصلہ ملا ہے کہ وہ بھی رہا ہو جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی موجودہ لہر کو روکنے کا واحد حل ان کارروائیوں میں ملوث افراد کو سزائے موت دینا ہی ہے۔
افغان حکام کے مطابق اس وقت 300 سے زائد قیدی سزائے موت پر عمل درآمد کے منتظر ہیں جب کہ دو عدالتوں کی طرف سے 600 مزید قیدیوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے ان پر عمل درآمد کی تاحال توثیق نہیں کی۔
نائب صدر امراللہ صالح کا یہ بیان کابل اور ملک کے دیگر شہروں میں ہدف بنا کر قتل کرنے کے متعدد واقعات کے بعد سامنے آیا ہے۔ اتوار کو خاتون ججز کے قتل کے علاوہ وزارتِ مواصلات و ٹیکنالوجی کے ایک اہلکار کی گاڑی پر مقناطیسی بارودی سرنگ سے حملہ کیا گیا جس سے گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔
امریکہ سمیت دیگر ممالک نے افغانستان میں حالیہ حملوں کی مذمت کی ہے۔ افغانستان میں امریکی ناظم الامور راس ولسن نے طالبان کو اس حملے کا ذمہ دار ٹھیرایا ہے۔
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں طالبان کو باور کرایا کہ ایسے اقدامات سے دنیا بھر میں غصے کی لہر پیدا ہوتی ہے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے ایسے واقعات کو مکمل طور پر روکنا ہو گا۔ تاہم طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اسکاٹ موریسن نے صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کر کے ٹارگٹ کلنگ اور قتل کے دیگر واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کو جنگ بندی پر رضامند ہو جانا چاہیے۔
افغان سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں نے امریکہ میں بائیڈن انتظامیہ کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے مستقبل میں کردار کے بارے شبہات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم بعض سیاست دانوں کا خیال ہے کہ وہ نئی انتظامیہ کے دوران بھی یہ کردار ادا کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال 29 فروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے تحت افغانستان کی جیلوں میں قید سیکڑوں طالبان جنگجوؤں کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اس کے بدلے طالبان نے امریکی اور غیر ملکی افواج پر حملے نہ کرنے جب کہ افغان سرزمین امریکہ اور کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
ابتداً طالبان قیدیوں کی رہائی پر افغان حکومت نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ تاہم امریکہ کی مداخلت پر طالبان جنگجوؤں کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی تھی۔