میانمار سے پناہ کی تلاش میں بھارت آنے والے روہنگیا پناہ گزین قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پکڑ دھکڑ سے گھبرا کر یا تو فرار ہو رہے ہیں یا پھر خفیہ مقامات پر چھپ رہے ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ حکومت انہیں غیر قانونی طور پر بھارت آنے پر گرفتار کر لے گی۔ گزشتہ ماہ کے دوران سیکیورٹی فورسز نے بھارت بھر میں بہت سے روہنگیا پناہ گزینوں کو پکڑ کر جیل بھیج دیا ہے جس سے میانمار میں تشدد سے فرار ہو کر انڈیا آنے والے روہنگیا پناہ گزین خوف و ہراس کا شکار ہیں۔
روہنگیا پناہ گزیں نظام الدین کا کہنا ہے کہ سینکڑوں روہنگیا گذشتہ چند برسوں سے مغربی بنگال میں رہ رہے تھے۔ اس صوبے میں بعض روہنگیا افراد کی گرفتاری کے بعد گزشتہ ماہ سے وہ سب غائب ہو گئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں نے بھارت کی دیگر ریاستوں میں پناہ لے لی ہے۔ نظام الدین ، اپنی ماں، بیوی اور تین بچوں کیساتھ مغربی بنگال سے بنگلہ دیش پہنچے ہیں۔ وہ گزشتہ تین سالوں سے مغربی بنگال میں مقیم تھے۔
نظام الدین نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ کو بتایا کہ اگر میرا خاندان گرفتار ہو جاتا تو میانمار حوالگی سے پہلے بھارتی حکام ہم سب کو جیل بھیج دیتے۔ میانمار ابھی تک روہنگیا پناہ گزینوں کیلئے غیر محفوظ ہے اور ہم دوبارہ جہنم میں نہیں جانا چاہتے۔
بھارتی وزارتِ داخلہ میں پناہ گزینوں سے متعلق امور سے نمٹنے والے ایک عہدیدارنے روہنگیا افراد کی پکڑ دھکڑ پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
روہنگیا پناہ گزینوں کے پاس کون سا متبادل راستہ ہے؟
میانمار میں امتیازی سلوک اور تشددسے بچنے کیلئے، اقلیتی روہنگیا مسلمان عشروں سے بودھ مت کی پیرووکار اکثریتی آبادی والے ملک سے ہمسایہ ممالک کو فرار ہو رہے ہیں جن میں بنگلہ دیش سمیت بھارت اور دیگر ملک شامل ہیں۔ ایک سال قبل لگائے گئے تخمینے کے مطابق، چالیس ہزار روہنگیا پناہ گزیں بھارت کے مختلف شہروں میں رہ رہے تھے۔
اپنے ملک میں نسلوں سے رہنے کے باوجود اس کی شہریت نہ رکھنے والے روہنگیا قانونی طریقے سے کسی دوسرے ملک نہیں جا سکتے۔ بھارت نے سن 1951 میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنوینشن پر دستخط نہیں کئے تھے۔ اس لئے وہ بھارت میں داخل ہونے والے تمام روہنگیا افراد کو غیر قانونی پناہ گزیں گردانتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق، بھارت میں غیر قانونی طور سے داخل ہونے کے الزامات پر، اس وقت بھارت کی جیلوں میں تین سو سے لیکر پانچ سو تک روہنگیا قید ہیں۔
جنوری کے آخری ہفتے تک بھارت کے مشرقی شہر کولکتہ کے نزدیک ایک گاؤں میں مقیم ، ایک روہنگیا پناہ گزیں، جان محمد نے بتایا کہ کہ اس کے چچا اور دیگر دو رشتہ دارگزشتہ ماہ ریل سے سفر کر رہے تھے جب پولیس نے اُنہیں گرفتار کر لیا۔
بھارتی پولیس نے ان سے میانمار کا پاسپورٹ طلب کیا جس پر بھارت کا ویزا لگا ہو۔ جان محمد کہتے ہیں کہ دیگر روہنگیا کی طرح ان کے پاس میانمار کا پاسپورٹ نہیں تھا۔ پولیس نے اُنہیں غیر قانونی طور سے نقل مکانی کرنے پر گرفتار کر لیا اور وہ اب جیل میں بند ہیں۔
بنگلہ دیش کے کاکسز بازار میں روہنگیا افراد کے حقوق کیلئے سرگرم کارکن ،حسین احمد، کا کہنا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارتی اہلکار بے جا تنگ کرتے ہیں۔
حسین احمد ، جنوبی ایشیا میں روہنگیا تحریک پر تحقیق کرتے ہیں۔ انہوں نے میانمار میں سن انیس سو بیاسی میں منظور ہونے والے ایک قانون کا حوالہ دیا جس کے بعد،زیادہ تر روہنگیا باقاعدہ طور پر ریاست کا شہری ہونے کے حق سے محروم ہو گئے، حالانکہ ان کے خاندان نسلوں سے میانمار میں آباد تھے۔ میانمار کی فوج نے سن 2017 میں، پولیس سٹیشنوں پر حملوں کے سلسلے کے بعد، روہنگیا کے خلاف قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا، جس کے بعد، تقریباً دس لاکھ روہنگیا افراد کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ عالمی برادری نےان کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے نسل کشی قرار دیا۔
روہنگیا مخالف جذبات میں شدت
بھارت میں روہنگیا مخالف جذبات میں اس وقت سے شدت آ رہی ہے، جب سے ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) نے سن دوہزار چودہ کے انتخابات میں بڑی فتح حاصل کر کے اقتدار سنبھالا۔ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور دیگر ہندو تنظیموں نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے، جس میں روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارت سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
بہت سے روہنگیا افراد کے نزدیک، ان کے خلاف حالیہ پکڑ دھکڑ کی مہم مغربی بنگال میں ہونے والے صوبائی انتخابات سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ انتخابات آئندہ چند ماہ میں ہونے کی توقع ہے۔
حسین احمد کہتے ہیں کہ سن 2019 میں ہوئے قومی انتخابات سے کچھ ہی دیر پہلے روہنگیا پناہ گزینوں کی ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ بنگال میں انتخابات سے پہلے روہنگیا کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
ہیومن رائیٹس واچ میں جنوبی ایشیا کی ڈائرکٹر، میناکشی گنگولی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو نشانہ بنانے کی بڑی وجہ سیاسی ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران میناکشی کا کہنا تھا کہ بھارت جانتا ہے کہ روہنگیا دنیا میں سب سے زیادہ امتیازی رویوں کا شکار برادری ہے۔ تقریبا ایک ملین روہنگیا پناہ گزیں بنگلہ دیش میں ہیں۔ میناکشی کہتی ہیں کہ جو معدودے چند یہاں بھارت پہنچے ہیں، انہیں تحفظ دینے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں دوبارہ اذیتیں پہنچانے کی۔
میناکشی گنگوی کہتی ہیں کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر روہنگیا کو ہدف بنایا جا رہا ہے، کیونکہ ہندو قوم پرست حکومت جن کمیونٹیز پر دباو ڈالتی ہے ان میں روہنگیا پناہ گزیں بھی شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ کی جانب سے مغربی بنگال میں صوبائی سطح کے لیڈروں سے انسانی حقوق کی پامالیوں پر بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔
انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے بنگلہ دیشی کارکن پناکی بھٹا چاریہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ نے میانمار میں رہنے والے روہنگیا افراد کو دنیا کی سب سے زیادہ مظلوم اقلیت قرار دیا ہے۔ انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ روہنگیا افراد کی مدد کیلئے مزید کام کرے۔
بھٹاچاریہ کہتے ہیں بھارت نے سن 2019 میں اپنے سیٹیزن شپ ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے ظلم کا شکار غیر مسلمان افراد کیلئے اپنی شہریت کی پیشکش کی تھی۔ بھارت میانمار کا بھی ہمسایہ ملک ہے۔ تاہم بھارت نے میانمار میں بد ترین امتیازی سلوک کا شکار روہنگیا اقلیت کو اپنی شہریت یا پناہ دینے کی پیشکش نہیں کی تھی۔
بھٹا چاریہ کہتے ہیں کہ بھارت میں دائیں بازو کے خیالات رکھنے والی ایسی قوتیں زور پکڑ رہی ہیں، جو بھارت کو ہندو راشٹریہ یا ہندو قوم بنانا چاہتی ہیں، اور روہنگیا افراد کو اس لئے بھی تنگ کیا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق ایک مختلف مذہب سے ہے ۔