امریکی پاپ گلوکارہ برٹنی اسپیئرز نے ایک بار پھر اپیل کی ہے کہ اُن کی زندگی پر اُن کے والد کا کنٹرول ختم کیا جائے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بدھ کو لاس اینجلس کی عدالت میں سماعت کے دوران گلوکارہ جذباتی ہو گئیں اور بولیں کہ وہ اپنی زندگی واپس چاہتی ہیں اور اب مزید کسی کی غلامی برداشت نہیں کر سکتیں۔
گلوکارہ نے بذریعہ فون عدالت کو بتایا کہ "میں خوش نہیں ہوں، میں سو نہیں سکتی، میں بے حد غصے میں ہوں اور روزانہ روتی ہوں۔"
برٹنی اسپیئرز نے والد کی سرپرستی ختم کرنے کے لیے گزشتہ برس عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
انتالیس سالہ پاپ گلوکارہ کے وکیل نے عدالت میں جمع کرائی گئی درخواست میں کہا تھا کہ اُن کی موکلہ کے والد جیمز اسپیئرز 2008 سے اُن کی آمدنی اور دیگر اُمور کی نگرانی کر رہے ہیں۔ تاہم، اب برٹنی اُنہیں فیصلہ سازی سے دُور رکھنا چاہتی ہیں۔
سن 2008 میں برٹنی اسپیئرز ذہنی صحت سے متعلق مسائل کا شکار ہوئی تھیں اور اس دوران عدالت نے ان کے لیے نگران مقرر کیا تھا۔
امریکہ میں کنزرویٹر شپ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کی عمر یا ذہنی پختگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے عدالت نگران مقرر کرتی ہے جو اس کی ذاتی زندگی کے معاملات اور اخراجات کی نگرانی کرتا ہے۔
البتہ، برٹنی اسپیئرز کے معاملے کے بعد اس قانون کی مخالفت میں بھی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔
برٹنی کے بقول کنزرویٹر شپ (قانونی سرپرست اور نگران) بے حد غلط ہے۔ برٹنی کے سیکڑوں مداح بھی اُن کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے عدالت کے باہر جمع تھے اور اُنہوں نے ’فری برٹنی‘ کے پلے کارڈز تھامے ہوئے تھے۔
برٹنی اسپیئرز کے مداحوں نے کنزرویٹر شپ قانون ختم کرنے کے حق میں ریلی بھی نکالی۔
برٹنی اسپیئرز کا مزید کہنا تھا کہ انہیں 2019 کے آغاز میں لاس ویگاس کے شوز کو منسوخ کر کے زبردستی ذہنی صحت کے سینٹر میں داخل کرا دیا گیا جس کا ماہانہ خرچ 60 ہزار ڈالرز تھا۔ گلوکارہ نے بتایا کہ 2018 کے بعد سے انہوں نے ابھی تک پرفارم نہیں کیا۔
برٹنی کے والد جیمز اسپیئرز کے وکلا نے برٹنی کے الزامات کے بعد دلائل دینے کے لیے موکل سے مشاورت کے لیے مزید وقت مانگ لیا۔
عدالت نے بغیر کوئی فیصلہ سنائے سماعت ملتوی کر دی۔
اس خبر میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’اے ایف پی‘ سے لی گئیں ہیں۔