افغانستان میں طالبان کے قبضے سے جہاں ترقی پسند، آزاد خیال طبقات سمیت اقلیتوں اور خواتین کو اپنی شخصی اور مذہبی آزادی کے حوالے سے دھچکا پہنچا ہے وہیں موسیقی سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی مایوسی چھا گئی ہے۔ اور سُر بکھیرتا یہ گروہ اگر مکمل طور پر خواتین پر مبنی ہو تو مایوسی کی کیفیت بھی دوگنی ہی ہوگی۔
افغانستان میں تبدیلی کی علامت سمجھا جانے والا 'آل فیمیل آرکسٹرا' یعنی صرف خواتین پر مبنی آرکسٹرا گروپ، شکستِ کابل کے بعد اپنی جان بچانے کے لئے روپوش ہے۔
گو کہ طالبان نے انتقامی کارروائیوں سے اجتناب کا عام اعلان کیا ہوا ہے مگر طالبان کے ماضی کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے خواتین آرکسٹرا کی کئی ارکان نے روپوش ہونے سے پہلے اپنے میوزک کے آلات توڑ ڈالنے کے ساتھ ساتھ آرکسٹرا سے تعلق ظاہر کرنے والی تمام دستاویزات بھی جلا ڈالیں۔
افغانستان کے مشہور آل فیمیل آرکسٹرا کا چہرہ سمجھی جانے والی چوبیس سالہ نگین خپلواک اس وقت اپنے گھر میں تھیں جب انہیں طالبان کے کابل کے مضافات تک پہنچ جانے کی اطلاع ملی۔ نگین یہ اطلاع ملتے ہی شدید مضطرب ہوگئیں۔ نگین نے طالبان کی گزشتہ حکومت میں موسیقی اور خواتین پر کام کرنے کی پابندی کی خبریں سن رکھی تھیں۔
نگین یہ بھی سن چکی تھیں کہ اپنی حکومت کے اختتامی دنوں میں طالبان نے ان افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا تھا جو ان کے نزدیک طالبان طرز کے شریعہ قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
یہی کچھ سوچتے ہوئے پہلے نگین نے اپنے کمرے میں سجے ڈرمز چھپائے۔ پھر انہوں نے اپنے آرکسٹرا کی خبروں پر مبنی تمام اخباری تراشے اور آرکسٹرا میں شمولیت کی ساری تصاویر جمع کیں اور انہیں جلا دیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے نگین نے بتایا کہ یہ سب کرتے ہوئے ''بہت برا محسوس ہورہا تھا۔ یہ ایسا تھا جیسے میں اپنی زندگی کی بہت اہم یادداشتیں راکھ میں تبدیل کر رہی ہوں''.
نگین افغانستان سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزاروں شہریوں میں سے ایک ہیں اور اب امریکہ پہنچ چکی ہیں۔ نگین اس لحاظ سے خوش نصیب رہیں کہ اب انہیں طالبان کی انتقامی کارروائی کی فکر نہیں مگر ان کی باقی ساتھی وہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو پائیں۔
افغانستان کا زہرہ آرکسٹرا
فارسی میں موسیقی کی دیوی کے نام سے منسوب 'زہرہ' کے نام سے کام کرنے والے اس آرکسٹرا میں کابل کے یتیم خانے میں پلنے والی تیرہ سے بیس سال کی عمر کی لڑکیاں شامل تھیں۔
ایسا نہیں تھا کے سال دو ہزار چودہ میں تشکیل پانے والے اس آرکسٹرا کو ملک کے قدامت پسند حلقوں سے تنقید کا سامنا نا ہو۔ مگر تنقید سننا کسی بھی قسم کی جسمانی سزا یا موت سے بہت آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ آرٹسٹ اپنا کام دلیری سے کرتی رہیں اور طالبان راج کے اختتام کے کافی بعد بننے والے اس گروپ کو دنیا بھر میں افغان خواتین کی آزادی کی علامت کے طور پر خوب پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
سر پر سرخ حجاب لئے، ہاتھوں میں مغربی موسیقی کے آلات سمیت رباب پکڑے مغربی اور افغان موسیقی کے سُر بکھیرتی یہ لڑکیاں سڈنی اوپیرا ہاؤس ہو یا ڈیووس میں ہونے والا ورلڈ اکنامک فورم، ہر جگہ داد حاصل کر چکی ہیں۔
کیا افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی؟
افغانستان نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کے باہر، جہاں کبھی یہ لڑکیاں موسیقی پریکٹس کیا کرتی تھیں، آج طالبان تعینات ہیں۔ ملک کے کچھ حصوں میں ریڈیو اسٹیشنز کو موسیقی بند کرنے کے احکامات بھی مل چکے ہیں۔
میوزک انسٹیٹیوٹ کے بانی احمد سرمست نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ افغانستان ایک بار پھر پتھر کے دور میں پہنچ جائے گا''۔ ان کے مطابق، 'زہرہ آرکسٹرا' آزادی اور خواتین کے بااختیار ہونے کی علامت تھا اور اس کی ارکان افغانستان کی ثقافتی سفیر کی حیثیت رکھتی تھیں۔
سرمست اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور انہوں نے بتایا کے طالبان نے اسٹاف کو ادارے میں جانے سے روک رکھا ہے۔
ان کے بقول، ادارے میں آنے والے زہرہ اور دوسرے موسیقی پریکٹس کرنے والے گروپس اپنی جان کے لئے فکرمند ہیں اور تاحال روپوش ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی جانب سے انسٹیٹیوٹ کے بند کئے جانے کے حوالے سے استفسار پر طالبان ترجمان نے کوئی فوری جواب نہیں دیا۔
پندرہ اگست کو جب نگین موسیقی کے حوالے سے اپنی تمام یادداشتیں جلا رہی تھیں ان کے بہت سے ساتھی اکتوبر میں ہونے والے ایک بڑے بین الاقوامی ٹور کے لئے انسٹیٹیوٹ میں تیاریاں کر رہے تھے۔۔
کابل پر طالبان کی پیش قدمی کی اطلاع ملتے ہی تمام ارکان جلدی میں اپنے بھاری بھرکم موسیقی کے آلات پیچھے ہی چھوڑ گئے۔
احمد سرمست نے بتایا کہ انہیں کئی اسٹوڈنٹس نے رابطہ کر کے بتایا کہ ان کی جانوں کو خطرہ ہے اور یہ کہ کسی طرح ان کی مدد کی جائے۔ سرمست کے اسٹاف نے انہیں افغانستان واپس آنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ طالبان انہیں تلاش کرنے کے لئے کئی بار سرمست کے گھر پر چھاپہ مار چکے ہیں۔
چیلو انسٹرومنٹ بجانے والی زہرہ گروپ کی اکیس سالہ سابقہ رکن نظیرہ ولی اس وقت امریکہ میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکہ آنے کے بعد بھی گروپ کے ارکان کے ساتھ رابطے میں رہیں۔
نظیرہ بتاتی ہیں کہ گروپ کی ارکان اتنی سہمی ہوئی تھیں کی انہوں نے خوف کے عالم میں اپنے موسیقی کے آلات توڑ ڈالے اور سوشل میڈیا سے اپنی پروفائلز فوری ڈیلیٹ کر دیں۔
بقول ان کے، ''میرا دل یہ سوچ کر ہی دہل جاتا ہے کہ اب جبکہ وہاں طالبان کا راج ہے میری ساتھیوں کے ساتھ کسی بھی لمحے کیا کچھ ہو سکتا ہے''.
نظیرہ کہتی ہیں، ''اگر صورتحال ایسی ہی رہی جیسی اس وقت ہے تو افغانستان میں موسیقی دم توڑ دے گی''.
رائٹرز نے صورتحال جاننے کے لئے افغانستان میں روپوش کئی آرکسٹرا ارکان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر کسی طرف سے بھی جواب موصول نہیں ہوا۔
(اس مضمون میں معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)