ترک صدر رجب طیب ایردوان کے امریکہ سمیت دس ممالک کے سفیروں کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دئے جانے کے بیان کے حوالے سے بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات نے کہا ہے کہ سفراء نے جس طرح سماجی و فلاحی کارکن عثمان کوالہ کی رہائی پر زور دیا، اس کے بعد، بقول ان کے، ترکی کے صدر کے پاس اسی نوعیت کے اقدام کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہیں رہ گیا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ کسی ملک کے اندرونی معاملات میں دخل دینا دوسرے ملکوں کے سفیروں کا کام نہیں ہوتا۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ، ''ابھی سفیروں کو نکالا نہیں گیا۔ اور یہ ایک علامتی اقدام ہے جس کا مقصد یہ پیغام دینا ہے کہ ترکی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کرے گا''۔
بقول ان کے، اگر ترک صدر سخت قدم نہ اٹھاتے تو اندرون ملک انکو سیاسی طور پر اس سے بہت نقصان پہنچتا اور عام آدمی یہ ہی کہتا کہ انکا لیڈر کمزور ہے اور غیر ملکی مداخلت کو اس نے قبول کر لیا ہے''۔
ترکی پر اس بیان کا کیا اثر پڑے گا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے، تجزیہ کاروں کی آراء اس بارے میں متنوع ہیں۔
عثمان کوالہ پر 2013ء میں ملک گیر مظاہروں کی مدد کرنے اور چند برس قبل ترکی میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کا الزام ہے، جس کی کوالہ تردید کرتے ہیں۔ دس ممالک کے ان سفیروں نے گزشتہ کئی برس سے قید کوالہ کے کیس کے جلد اور درست حل اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا؛ جسے صدر ایردوان نے ترکی کے معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے اسکی مذمت کی اور ان سفیروں کو ناپسندیدہ قرار دیا۔
ڈاکٹر فاروق حسنات کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ترکی کے لیے اس سے کوئی معاشی مسائل پیدا ہوں گے، کیونکہ ان کا پرائیویٹ سیکٹر بہت بڑا ہے اور دوسرے ملکوں کے پرائیویٹ سیکٹر ترکی سے تعاون کر رہے ہیں۔ بلکہ، بقول ان کے، شام جیسے معاملات کے سلسلے میں خود یورپی ملکوں کو ترکی کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ اس لئے وہ ترکی سے تعلقات بگاڑنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اس سوال کے جواب میں آیا ترکی روس سے زیادہ قریب ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ وہ یہ تو نہیں کہیں گے، لیکن کسی حد تک قربت بڑھی ہے اور ترکی امریکہ کی مخالفت کے باوجود نہ صرف روس سے میزائل کا دفاعی نظام خرید رہا ہے، بلکہ اس کا کہنا ہے کہ وہ اور بھی ہتھیاروں کے نظام روس سے خریدے گا۔
واشنگٹن میں قائم امریکن فارن پالیسی کونسل کے نائب صدر ایلان برمن نے کہا کہ عثمان کوالہ کا معاملہ ترکی کی حکومت کے لئے بہت حساس نوعیت کا ہے اور دس ملکوں کے سفیروں نے اس حوالے سےجو مشترکہ مطالبہ کیا ہے وہ یورپی مغربی نظریے اور ترکی کے نظریے میں ایک بنیادی تقسیم کی نشاندہی کرتا ہے جو مطلق العنانیت کی جانب جا رہا ہے۔ اور وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کوئی گنجائش دینے کے لئے قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اور اس قسم کے بیانات کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت خیال کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ان سفراء کو ناپسندیدہ قرار دینے کے بعد وہ واقعی ان کو نکالتے ہیں،تو ترکی کے لئے اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں؛ کیونکہ اس سے ترکی اور مغربی ملکوں کے درمیاں سیاسی اور معاشی معاملات میں بڑی خرابی پیدا ہوگی۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا ترکی اب روس سے زیادہ قریب ہو رہا ہے، ایلان برمن نے کہا کہ روس اور ترکی کے تعلقات کی تاریخ بہت پیچیدہ ہے۔ اور یہ صورتحال ماسکو کے لئے ترکی سے قریبی تعلق کا موقع تو فراہم کرے گی، لیکن یہ باور کرنا مشکل ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کی تاریخ کو نظر انداز کرکے کوئی طویل المدت اسٹریٹیجک تعلق قائم کر سکیں۔ لیکن اگر ترکی اور مغربی ممالک ایک دوسرے سے دور ہوئے تو ممکن ہے کہ ترکی کے پاس کوئی اور متبادل نہ ہو اور وہ نئے اور قریبی دوست تلاش کرے،جن میں روس بھی شامل ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے صدر ایردوان کو اندرون ملک سیاسی فائدہ حاصل ہو گا اور ترکی کے عوام میں یہ ایک مقبول فیصلہ سمجھا جائے گا کہ انکا لیڈر مغرب کےخلاف مزاحمت کر سکتا ہے۔
فرخ سہیل گوئیندی ایک پاکستانی صحافی، رائیٹر اور تجزیہ کار ہیں جو ترکی میں رہتے ہیں۔ اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی میں عام انتخابات سے پہلے صدر ایردوان کچھ ایسے کام کرنا چاہتے ہیں جن سے لوگوں کو اچانک حیرت ہو۔ کیونکہ، جو سروے آرہے ہیں ان کے مطابق ان کی سیاسی جماعت کمزور ہو رہی ہے اور اپوزیشن کی دو سیاسی جماعتیں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ اس لئے،اپنی داخلی سیاست کو مستحکم کرنے یا اپنی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لئے، وہ بین الاقوامی سیاست میں اپنی موجودگی اور اہمیت کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔
فرخ سہیل گوئیندی کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے ترکی کو معاشی نقصان اور عالمی سطح پر تنہا رہ جانے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ملک کی معاشی حالت کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔
بقول ان کے، ترک لیرا کی قیمت مسلسل گر رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری بتدریج کم ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترکی عالمی سیاست میں یا علاقائی سیاست میں تو روس سے کچھ قریب ہوا ہے، لیکن اس کے معاشی مفادات زیادہ تر مغرب یملکوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے مغرب سے الگ ہونا کسی طور بھی ترکی کے مفاد میں نہیں ہو گا۔