امریکہ نے ایران پر 2015 میں ہونے والے جوہری معاہدے کی بحالی کی جانب پیش رفت کے لیے دباؤ بڑھا دیا ہے اور کہا ہے کہ چند ہی روز میں ایران کی ویانا میں عالمی قوتوں سے ہونے والے مذاکرات میں سنجیدگی کے بارے میں پتا چل جائے گا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ آئندہ کچھ روز میں یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ آیا ایران ان مذاکرات کے بارے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔ وہ یورپ کے دورے پر جانے سے پہلے نامہ نگاروں سے بات کر رہے تھے۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ایران مذاکراتی ہتھکنڈے استعمال کر کے اس طرح کے دباؤ کو ٹال سکتا ہے اور بات چیت کو طوالت دے سکتا ہے۔
خیال رہے کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مقصد 2015 میں ہونے والے 'جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن' نامی جوہری معاہدے کی بحالی ہے۔
امریکہ اور ایران نے بالواسطہ مذاکرات کو پیر سے پھر سے شروع کیا۔ اس گفت و شنید میں دوسرے ممالک ثالثی کا کام کر رہے ہیں تاکہ دونوں ممالک یعنی امریکہ اور ایران کو جوہری معاہدے کی پابندی کی طرف واپس لایا جا سکے۔
اس سے قبل امریکی اور ایرانی مذاکراتی ٹیموں نے اپریل سے جون تک بالواسطہ بات چیت کے پانچ دور مکمل کیے تھے جو بے نتیجہ رہے۔ ایران نے اُس وقت مذاکرات کو اپنے ملک میں صدارتی انتخابات کے پیش نظر معطل کر دیا تھا۔
جے سی پی او اے کے مخفف سے موسوم معاہدے کے تحت ایران نے دنیا سے اپنی جوہری سرگرمیاں محدود کرنے کا وعدہ کیا تھا تاکہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل نہ کرے۔ اس کے بدلے میں ایران پر عائد پابندیوں کو نرم کیا جانا تھا۔ ساتھ ہی ایران اس بات سے انکار کرتا آ رہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا خواہش مند ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکہ کو اس معاہدے سے 2018 میں الگ کر لیا تھا۔ اس وقت کی انتظامیہ نے یہ کہا تھا کہ یہ معاہدہ ایران کو پابند ہونے پر مجبور نہیں کرتا اور امریکہ نے ایران پر ہٹائی گئی پابندیاں پھر سے نافذ کر دی تھیں۔
اس امریکی اقدام کے رد عمل میں ایران نے ایک سال بعد کہا کہ وہ اپنی ایٹمی سرگرمیاں معاہدہے میں طے پانے والی حدود سے آگے بڑھائے گا۔ صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ اگر ایران اس معاہدے کی پابندی کرے تو امریکہ بھی اس کی پاسداری کرے گا۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے بدھ کے روز ایران کی جانب سے اس معاہدے کے ضابطوں کی تازہ ترین خلاف ورزی کی تصدیق کی تھی۔
ایجنسی کے مطابق ایران اس وقت فردا کے مقام پر اپنی زیر زمین جوہری تجربہ گاہ میں جدید سنٹری فیوجز استعمال کر کے یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد کی سطح تک بڑھا رہا ہے۔ یہ سطح جوہری اسلحہ بنانے سے محض ایک قدم پیچھے ہے۔
امریکہ کے قریبی حلیف اسرائیل نے، جسے ایران نے تباہ کرنے کی دھکی دے رکھی ہے، ایران کی جوہری کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ بلنکن سے فون پر بات کی اور الزام لگایا کہ ایران فردا کے مقام پر جوہری ترقی کو مذاکرات میں نیوکلئیر بلیک میل کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت نے امریکہ پر زور دیا ہے کہ ایران کی جوہری افزودگی کی پیش رفت کے جواب میں مذاکرات کے عمل کو فوری طور پر روک دے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی اپیل کے بعد ایک صحافی کے سوال کے جواب میں بلنکن نے کہا کہ ایک دو روز میں ایران کی مذاکرات کے بارے میں سنجیدگی سامنے آ جائے گی۔
بلنکن نے کہا کہ "ہم اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ایک طرف تو ایران اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھائے اور دوسری طرف مذاکرات کو بھی طویل کرتا چلا جائے۔ ایسا نہیں ہو گا"۔
بلنکن کا بیان پہلا موقع تھا کہ صدر بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے کسی اہل کار نے ایران کی مذاکراتی پوزیشن کو جانچنے کے لیے کسی مخصوص مدت کی بات کی ہو۔
اس سے پہلے انتظامیہ کے اہل کار کئی مہینوں تک ایسا کرنے سے انکار کر تے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اہل کار یہ کہتے رہے ہیں کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔
ادھر ویانا میں ایران کی مذاکراتی ٹیم کے رہنما اور نائب وزیر خارجہ علی باقری نے جمعرات کو نامہ نگاروں کو امریکہ اور مغربی طاقتوں کے حوالے سے بتایا کہ اگر وہ تیار ہیں تو ایران مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔