امریکہ کے صدر جو بائیڈن جمعرات کو جمہوریت پر ایک اعلیٰ سطح کی ورچوئل اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں جس میں دنیا بھر سے رہنما، سول سوسائٹی کے ممبران اور پرائیویٹ سیکٹر کے ارکان مدعو ہیں۔
اس اجلاس کا مقصد دنیا بھر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایجنڈا رکھنا اور مل کر دنیا بھر میں جمہوریت کو لاحق خطرات سے نمٹنا ہے۔
یہ اجلاس جمعے کے روز تک جاری رہے گا اور یہ صدر بائیڈن کے انتخابی وعدوں کا حصہ ہے جس میں انہوں نے دنیا بھر میں آمرانہ حکومتوں کے عروج کے مقابل جمہوری نظام کو مستحکم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
سال 2022 میں بھی اسی طرح کی ایک اور سمٹ متوقع ہے۔ تاہم بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سمٹ کے بائیڈن انتظامیہ کے بعد جاری رہنے کا امکان نہیں ہے۔
جمہوریت سمٹ کا مقصد کیا ہے؟
بائیڈن انتظامیہ کے مطابق دنیا بھر کے رہنماؤں کو ترغیب کی جائے گی کہ وہ سمٹ کے مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئے معنی خیز اصلاحات کا اعلان کریں۔
اس سمٹ کا مقصد جمہوریت کو مضبوط بنانا، آمرانہ نظام کا مقابلہ کرنا، کرپشن کے مسئلے پر گفتگو اور انسانی حقوق کا فروغ ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں کہ شرکا اس سمٹ میں کیے جانے والے وعدوں پر عمل کیسے کریں گے۔ البتہ اس سمٹ کے دوران کیے جانے والے وعدوں پر عمل قانونی طور پر لازم نہیں اور حکومتوں کو ان پر عمل در آمد کے لیے عوام کی حمایت کی ضرورت ہو گی۔
امریکہ کے ویلیزلے کالج میں شعبہ سیاسیات کے پروفیسر سٹیسی گوڈارڈ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اگر آپ سمٹ کا ایجنڈا دیکھیں تو یہ غیر واضح لگتا ہے۔ وہ زیادہ حقیقت پسندانہ طریقہ کار دیکھنے کی خواہش مند ہیں جیسے الیکشن سیکیورٹی کے لیے ورکنگ گروپوں کی تشکیل۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے سینئر فیلو اسٹیون فیلڈسٹائین کہتے ہیں کہ صدر بائیڈن کی جمہوریت سمٹ بہت اہم ہے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے کافی مختلف ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے سینئر حکام نے حال ہی میں ایک پریس بریفنگ کے دوران رپورٹرز کو بتایا تھا کہ جمہوریت سمٹ کے فوری طور پر نتائج چند ممالک کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات میں نظر آ سکتے ہیں۔
اس سمٹ میں کون کون شرکت کر رہا ہے؟
صدر بائیڈن کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں 100 سے زائد ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
فریڈم ہاؤس کے ڈیمو کریسی انڈیکس کے مطابق 77 ممالک مکمل طور پر آزاد جمہوریت کے طور پر جانے جاتے ہیں، 31 جزوی طور پر آزاد جمہوریت جب کہ تین ممالک آمرانہ نظام کے حامل ہیں۔
اس سمٹ کے لیے جن ممالک کو دعوت دی گئی ہے اس پر سوالات کھڑے ہوئے ہیں۔ عراق، انگولا اور کانگو کو اجلاس میں بلانے پر فیلڈسٹائن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان ممالک کو فریڈم ہاؤس نے آزاد جمہوریت کی فہرست میں نہیں رکھا۔
ایسے ہی فریڈم ہاؤس کے انڈیکس میں 53 پوائنٹس کے ساتھ بوسنیا ہرزیگوینا کو نہیں بلایا گیا جب کہ 54 پوائنٹس کے ساتھ کوسوو کو بلایا گیا ہے۔ فریڈم ہاؤس کے انڈیکس میں پاکستان کا اسکور 37 ہے جسے صدر بائیڈن نے سمٹ میں مدعو کیا ہے جب کہ سری لنکا کا 56 اسکور ہونے کے باوجود اسے شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
بدھ کو ایک سینئر پاکستانی افسر نے، ریکارڈ پر بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان ایک چین پالیسی کی حمایت کرتا ہے اور تائیوان کی جمہوریت کانفرنس میں شمولیت ہمارے مؤقف کے خلاف ہے۔
پاکستان کی جانب سے سمٹ میں شرکت سے انکار کے بعد بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ اس سمٹ کے شرکا اور اس سے غیر حاضر رہنے والے ممالک کے ساتھ مل کر جمہوریت کے استحکام، انسانی حقوق کے فروغ، کرپشن سے لڑنے کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس سمٹ کے شرکا کی فہرست کا یہ مطلب نہیں کہ ان ممالک کو امریکی آشیرباد حاصل ہو گئی ہے۔
ان کے مطابق ’’ہر جمہوریت ایک مسلسل عمل کا نام ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی جمہوریت پر پسند یا ناپسند کا ٹھپہ لگا رہے ہیں۔ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہم متنوع آوازوں کو شامل کر رہے ہیں۔‘‘
فیلڈسٹائن کے مطابق شرکا کی فہرست کا تعین علاقائی معاملات اور امریکی اسٹرٹیجک مفادات سے بھی ہوا ہے جیسے اس سمٹ کے ذریعے کسی ملک میں جاری جمہورت کی تحریک کی حوصلہ افزائی کرنا۔
کیا اس سمٹ کا مقصد دنیا کو روس اور چین کے خلاف ابھارنا ہے؟
گوڈارڈ کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس سمٹ کا مقصد دنیا کو روس اور چین کے خلاف ابھارنا نہیں لیکن یہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ روس اور چین میں 'آمرانہ' طرزِ حکمرانی کے خلاف حمایت حاصل کر سکے۔
ان کے بقول یہ کانفرنس 'آیا آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف ہیں' کی ہی ایک شکل ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں کو ساتھ ملانے کا مقصد امریکہ اور اس کے حلیفوں کو روس اور چین سے الگ کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت سمٹ سے کچھ ممالک جیسے جنوبی کوریا یا جرمنی بے چین ہیں کیوں کہ ان کی معیشت کا انحصار چین پر بہت حد تک ہے۔