روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور چین کے سربراہ شی جن پنگ نے جمعے کے روز بیجنگ میں2022ء کے سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب سے پہلے ملاقات کی جس میں انھوں نے امریکی اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے قریبی تعاون اپنانے پر زور دیا۔ چین کا کہنا ہے کہ پوٹن اور شی کی اب تک کی یہ اڑتیسویں بالمشافہ ملاقات تھی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے میں جب دونوں ملکوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، ان کی کوشش یہی ہے کہ وہ اپنے مراسم میں مزید قربت پیدا کریں۔
یہ ملاقات ایسے میں ہوئی ہے جب روس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے، جس کے نتیجے میں تنازع بھڑک اٹھا ہے، جب کہ روس مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد، نیٹو سے مراعات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے وائس آف امریکہ کے لیے ولیم گیلو نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ بات ابھی واضح نہیں ہوئی آیا یوکرین کے معاملے پر چین کس حد تک روس کی حمایت میں آگے جا سکتا ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ اگر بیجنگ اولمپکس کے دوران یوکرین کا تنازع مزید بھڑک اٹھے۔
پوٹن اور شی کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں یوکرین کا کوئی واضح ذکر سامنے نہیں آیا۔ تاہم، دستاویز میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملک نیٹو کی مزید وسعت کے خلاف ہیں اور فوجی اتحاد سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ''سرد جنگ'' کے رویے کو ترک کیا جائے۔
امریکہ نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے، جس کا مقصد روس کا ا ثر و رسوخ مشرقی یورپ تک بڑھانا ہے۔
ایک طویل اور کثیر جہتی بیان میں تائیوان کے معاملے پر روس نے چین کے مؤقف کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جزیرہ چین کا 'لازمی حصہّ' ہے اور یہ کہ وہ ''کسی بھی طور پر'' تائیوان کی آزادی کے خلاف ہے۔
چین کے حکام نے تائیوان کی حمایت کرنے پر حال ہی میں امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ یہ بات امریکہ اور چین کے درمیان لڑائی کا سبب بن سکتی ہے۔ چین تائیوان کے خودمختار جزیر ے پر اپنے حقوق کا دعوے دار ہے۔
اپنے بیان میں پوٹن اور شی نے بیرونی طاقتوں کی جانب سے اپنے قرب و جوار کے علاقوں کی سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کی مذمت کی ہے۔تاہم بیان میں کسی خاص خطے کا ذکر نہیں کیا گیا، بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریق ان علاقوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
پوٹن اور شی نے ایشیا کی جانب اثر و رسوخ بڑھانے پر امریکہ پر نکتہ چینی کی، جس کےلیے چین کا کہنا ہے کہ ایسا طرز عمل اس کے دائرہ اختیار میں اضافے کی کوششوں کے منافی ہے۔ دونوں سربراہان نے کہا کہ وہ انڈو پیسیفک سےمتعلق امریکہ کی اس حکمت عملی کے خلاف انتہائی چوکنّا ہیں ، جس کا، بقول ان کے، امن اور سلامتی پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
انھوں نے امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے سہ فریقی اتحاد قائم کرنےپر شدید تشویش' کا بھی اظہار کیا ہے۔
ایک طویل مدت سے روس اور چین امریکی مؤقف کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یکساں مؤقف اختیار کرتے رہے ہیں، جہاں بحیثیت مستقل ارکان تینوں ملکوں کو ویٹو کے اختیارات حاصل ہیں۔
حال ہی میں چین اور روس نے یوکرین کے معاملے پر یکساں مؤقف اختیار کیا ہے۔ ایک حالیہ بیان میں چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ سلامتی سے متعلق روس کی تشویش جائز ہے' اور مطالبہ کیا ہے کہ سرد جنگ کی ذہنیت کو ختم کیا جائے''؛ جو اس جانب اشارہ ہے جسے چین امریکی خارجہ پالیسی تصور کرتا ہے۔
واشنگٹن میں قائم کارنیگی انڈوومنٹ فور انٹرنیشنل پیس کی نائب صدر، ایوان فائن بام نے کہا ہے کہ رفتہ رفتہ چین روس کے مؤقف کے قریب تر آچکا ہے۔
آن لائن فورم میں بات کرتے ہوئے، انھوں نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے یہ ایک اہم تبدیلی ہے۔ انھوں نے 2008ء میں جارجیا اور 2014ء میں کرائمیا پر حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت چین روس کے ساتھ شراکت داری میں اتنا قریب نہیں تھا۔