رسائی کے لنکس

’’ چین میں اولمپک مشعل روشن نہیں ہوئی، بجھ گئی ہے‘‘


سال 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں مشعل اٹھانے والے ایغورکملترک یلقون کا خاندان چین کی پالیسیوں کے سبب منقسم ہو چکا، وہ کہتے ہیں ایتھلیٹس کو بھی ان گیمز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا (فائل)
سال 2008 کے بیجنگ اولمپکس میں مشعل اٹھانے والے ایغورکملترک یلقون کا خاندان چین کی پالیسیوں کے سبب منقسم ہو چکا، وہ کہتے ہیں ایتھلیٹس کو بھی ان گیمز کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا (فائل)

انسانی حقوق کے گروپوں نے اسے "نسل کشی کی گیمز "قرار دیا ہے اور امریکہ او ر دیگر ممالک نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی  بنا پر اس تقریب کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے

سترہ سال کی عمر میں کمالترک یلقون ان متعدد طلبا میں شامل تھے جنھیں بیجنگ میں دو ہزار آٹھ کے اولمپکس گیم سے قبل اولمپک مشعل لے جانے کےلیے منتخب کیا گیا تھا۔ لیکن آج وہ امریکہ میں ایک ایسے سرگرم کارکن ہیں جو چین کی طرف سے اپنی ایغور نسلی برادری کے ساتھ بدسلوکی پر سرمائی کھیلوں کے بائیکاٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔

یلقون نے بوسٹن سےایک فون انٹرویو میں، جہاں وہ اب جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ان اولمپک گیمز کے ساتھ ہمارا اسپوٹس مین اسپرٹ اور عالمی شہریت کااحساس آگے نہیں بڑھ رہا''۔

سال 2008ء کے بعد جب انہوں نے اولمپک مشعل ریلی میں حصہ لیا تھا اور بعد میں مغربی چین میں سنکیانگ کےاپنے آبائی علاقے کے نمائندے کے طور پر گیمز میں شرکت کی تھی، بیجنگ نے مسلمان ایغوروں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرتے ہوئے یلقون کے خاندان کو بھی بانٹ کر رکھ دیا۔

جمعہ کی افتتاحی تقریب کے ساتھ ہی اولمپک مشعل بیجنگ پہنچ چکی ہے، یہ گیمز چین کی طرف سے ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے عالمی تنازع کی جانب ازسر نو توجہ مبذول کرا رہا ہے۔ تحقیق کاروں کے مطابق حکام نے پچھلے کئی برسوں کے دوران اقلیتی نسلی گروہوں کے دس لاکھ سے زیادہ ارکان کو کئی برسوں سے وسیع حراستی کیمپوں میں بند کررکھا ہے جن میں سے زیادہ تر ایغور ہیں۔

امریکہ او ر دیگر ممالک نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بنا پر اس تقریب کا سفارتی بائیکاٹ کیا ہے۔

چین کسی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی تردید کرتا ہے اور اسے "صدی کا سب سے بڑا جھوٹ" قرار دیتا ہےاور سنکیانگ میں اپنی پالیسیوں کو دہشت گردی سےنمٹنے کےلیے ایک تربیتی پروگرام کے طور پر بیان کرتا ہے۔

یلقون چین کے پہلے اولمپکس میں شرکت پر فخر محسوس کرتے ہوئے اسے یاد کرتا ہے۔ لیکن خوشی کا یہ جذبہ اس وقت ہوا ہو گیا جب ان کے والد لاپتہ ہو گئے تھے۔ 2016 میں ایغور ادب پر کتابوں کے ایڈیٹر یلقون روزی کو چینی ریاست کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کرکے پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی۔

جس کے بعد سے یلقون نے کبھی اپنے والد کو نہیں دیکھا۔ پانچ سال بعد ریاستی نشریاتی ادارے سی جی ٹی این میں نشر کی گئی سنکیانگ کی ایک دستاویزی فلم میں وہ اپنے والد کی ایک جھلک دیکھ سکے۔

یلقون دو ہزار چودہ میں گریجویٹ اسکول کےلیے امریکہ آئے تھےاور تب سے وہ یہیں مقیم ہیں۔گزشتہ مہینوں سے یلقون باقاعدگی سے بوسٹن میں سرمائی کھیلوں کے بائیکاٹ کے لیے ہونے والے مظاہروں میں شامل ہورہے ہیں۔

دو ہزار آٹھ کے سمر گیمز کے دوران جوچین میں پہلی بار منعقد ہوئے تھے، تبتی سرگرم کارکنوں نے اپنی برادری سے بیجنگ کے جبر کے خلاف مظاہرہ کیا تھا۔ یلقون کا کہنا ہےکہ وہ اس وقت اس بارےمیں کچھ نہیں جانتے تھے۔ وہ صرف اتنا جانتےتھے کہ ایک ہائی اسکول کے طالب علم کے طور پر جو سیاست پر توجہ نہیں دیتا، اسے دارالحکومت جانے اور یوتھ کیمپ کے حصے کے طور پر اولمپکس دیکھنے کا موقع ملا ہے۔

سنکیانگ کے تعلیمی حکام نے اسکولوں کے چند نمایاں طلبا میں سے ان کا انتخاب کیا تھا جس کےبعد کمیونسٹ یوتھ لیگ کے علاقائی عہدیداروں نے ان کا انٹرویو لیا تھا۔ جب انہیں فون آیا کہ وہ منتخب ہو گئے ہیں تو یلقون کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ" چاہے آپ رضاکار تھے یا مشعل بردار، یا آپ صرف ایک سامع کے طور پر شرکت کررہے تھے ، ہر کسی کو گیمز کا حصہ بننے کے قابل ہونے پر فخر تھا"۔ بیجنگ میں ایک اولمپک کمیٹی نے بعد میں یلقون کو بھی مشعل بردار کے طور پر منتخب کرلیا تھا۔

ان دنوں یلقون اپنے آبائی ملک سے بہت کم تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ اولمپکس مشعل ، جس کا مقصد امن اور دوستی کا پیغام دینا ہے ، اس کےلیے بجھ چکی ہے۔ وہ حالیہ سفارتی بائیکاٹ سے بھی مایوس ہیں، حالانکہ بائیکاٹ میں آسٹریلیا، کینڈا اور برطانیہ بھی شامل ہوگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بشمول ایتھلیٹس ان گیمز کا مکمل بائیکاٹ ہونا چاہئے تھا۔

(اس خبر کا مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG