صدر جوبائیڈن نے پیر کے روز ویڈیو لنک کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کی، جس کےدوران دونوں ملکوں کی مشترکہ اقدار کو نمایاں کیا گیا۔ یہ بات چیت ایسے میں ہوئی ہے جب امریکہ نے بھارت اور دیگر ملکوں سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ یوکرین پر روسی جارحیت کے خلاف سخت مؤقف اختیار کریں۔
گفتگو کے آغاز پر بائیڈن نے دونوں ملکوں کے مابین دفاعی شراکت داری کی نشاندہی کی۔انھوں نے کہا کہ دونوں ملک ''روسی لڑائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم استحکام کے اثرات سے نبردآزما ہونے کے لیے قریبی مشاورت جاری رکھیں گے''۔
امریکی صدر نے کہا کہ ''ہماری شراکت داری ہمارے عوام کے مابین جاری قریبی رشتوں، خاندانی مراسم، دوستی اور مشترکہ اقدار کی مظہر ہے''۔
یوکرین کے خلاف لڑائی میں بھارت کے غیر جانبدارانہ مؤقف پر امریکہ نے تشویش کا اظہار کیا ہے، جب کہ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اسے سراہتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے ''صورت حال کو ہر پہلو سے دیکھا ہے، نہ کہ یک طرفہ طور پر''۔
مودی نے یوکرین کی صورت حال کو ''انتہائی پریشان کن'' قرار دیتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی کہ لڑائی کے نتیجے میں ایک بھارتی طالب علم کی جان چلی گئی''۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ ان کی روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی سے ٹیلی فون پر گفتگو ہوئی ہے، جن سے انھوں نے امن کی اپیل کی ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک نے روس پر متعدد تعزیریں عائد کی ہیں جن کے تحت روس سے توانائی کے حصول پر بھی قدغن لگی ہے۔لیکن گزشتہ دنوں روسی وزیرِ خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران دونوں ملکوں نے نہ صرف ڈالر کے بجائے روبل میں تجارت جاری رکھنے بلکہ بھارت نے روس سے تیل درآمد کرنے کے عزم کابھی اظہار کیا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے پیر کے روز معمول کی بریفنگ کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس پر امریکہ اور مغرب کی عائد کردہ پابندیوں کا اثر توانائی کی برآمد پر نہیں پڑا۔ انہوں نے کہا،"اس کی ممانعت نہیں ہے اور نہ ہی اس سے ہماری تعزیروں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ "
صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی کے درمیان ورچوئل گفتگو کے بارے میں ساکی کا کہنا تھا کہ یہ امریکہ کے نائب سیکیورٹی ایڈوائزر کے اس سے پہلے کے دورے کا تسلسل ہے۔وائٹ ہاؤس میں معمول کی بریفنگ کے دوران زیادہ تر سوالات بائیڈن ۔مودی گفتگو اور روس اور یوکرین کی جنگ کے بارے میں بھارت کے مؤقف سے متعلق تھے۔
بھارت کے روس سے تیل درآمد کرنے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے کہا،" ہم چاہتے ہیں کہ سب ممالک تعزیروں کی پابندی کریں۔ بھارت اپنی ضروریات کا صرف ایک یا دو فیصد روس سے حاصل کرتا ہے اور صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ توانائی کے ذرائع میں تنوع کےلیے بھارت کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔"
ساکی نے مزید کہا ،" صدر نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ بھارت کے مفاد میں ہے کہ وہ روس سے توانائی اور دیگر اشیاء کی درآمد میں تیزی لائے اور یہی ہم دیگر ملکوں سے بھی کہہ رہے ہیں۔"
صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی کی بات چیت کے بارے میں ساکی نے کہا کہ" یہ گفتگو تعمیری اور مفید تھی۔''
روس سے متعلق بھارت کے مؤقف کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری نے کہا کہ حال ہی میں بھارت نے بوچا پر روسی حملے کے بعد سخت پریشان کن تصاویر سامنے آنے پر ان کی مذمت کی تھی اور وہ انسانی ہمدردی کے اظہار کے طور پر 90ٹن امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔
تاہم جین ساکی نے کہا ،" ہم ہمیشہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے لیڈر اس امر کا کھلے بندوں اظہار کریں کہ وہ تاریخ کے درست جانب کھڑے ہیں۔"
بقول وزیر اعظم مودی، بھارت نے بوچا کے شہر میں ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور اس کی غیر جانبدارانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم،اے پی کی اطلاع کے مطابق، بھارت نے یوکرین کے خلاف جارحیت پر روس کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی کوششوں میں حصہ نہیں لیا۔
جمعرات کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہونے والی رائے شماری میں بھارت نے ووٹ نہیں ڈالا، جس میں 147 ارکان کی انسانی حقوق کونسل سے روس کی رکنیت منسوخ کر دی گئی تھی، اس الزام پر کہ روسی فوج نے یوکرین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں حصہ لیا ہے، جب کہ امریکہ اور یوکرین نے جنگی جرائم کے الزام پر روس کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
قرارداد کے حق میں 93 اور مخالفت میں 24 ووٹ ڈالے گئے، جب کہ 58 ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
بھارت نے روس سے توانائی کی رسد کی خریداری جاری رکھی ہے، حالانکہ مغربی ممالک یہ زور دیتے رہے ہیں کہ روس سے تیل یا گیس کی خریداری سے اجتناب کیا جائے۔ جدید روسی فضائی دفاعی نظاموں کی خریداری کے حالیہ سودے پر امریکہ بھارت کے خلاف تعزیرات عائد کرنے پر بھی غور کر چکا ہے۔
گزشتہ ماہ، سرکاری تحویل میں کام کرنے والی تیل کی بھارتی کارپوریشن نے روس ے تین ملین بیرل خام تیل کی خریداری کا معاہدہ کیا، تاکہ اپنی ضروریات پوری کر سکے، جب کہ بھارت نے مغربی ملکوں کی جانب سے ایسی خریداری سے اجتناب کی پرواہ نہیں کی۔ بھارت روس سے تیل خریدنے والا اکیلا ملک نہیں ہے۔ متعدد یورپی اتحادی، جن میں جرمنی بھی شامل ہے، گیس کی خریداری کر رہا ہے، حالانکہ اس پر دباؤ ہے کہ وہ ان معاہدوں کو ترک کردے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق عالمی قیمتو ں کے برعکس روس تیل کی فروخت پر 20 فیصد کی رعایت دیتا ہے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، عراق بھارت کی تیل کی ضروریات کا 27 فی صد فراہم کرتا ہے؛ جب کہ سعودی عرب 17 فی صد، متحدہ عرب امارات 13 فی صد اور امریکہ بھارت کی تیل کی 9 فی صد ضروریات پوری کرتا ہے۔بائیڈن اور مودی نے اس سے قبل مارچ میں ایک دوسرے سے رابطہ کیا تھا۔
(اس خبر کا کچھ مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)