رسائی کے لنکس

موگادیشو میں خواتین کا پہلا میڈیا آؤٹ لیٹ، 'بلان میڈیا' کھل گیا


'بلان میڈیا' کی معاون ایڈیٹر، فاتحی محمد احمد
'بلان میڈیا' کی معاون ایڈیٹر، فاتحی محمد احمد

صومالیہ کے دارلحکومت موگادیشو میں خواتین کے زیر انتظام پہلا ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینل کھلا ہے۔ اقوا م متحدہ کے تعاون سے شروع کیا گیا یہ 'بلان میڈیا' ایسا مواد تیار کرے گا جس کا مقصد خواتین سے متعلق مسائل کو حل کرنا اوراس قدامت پسند ملک میں خواتین کے حقوق کی حمایت کرنا ہے۔

موگادیشو میں 'بلان میڈیا' کا آغاز صومالیہ کے پدری سماج میں خواتین کی جانب سے اپنے مقام کو تحفظ دینے کی ایک کوشش ہے۔

صومالی زبان میں 'بلان' کے معنی ہیں روشن اور واضح اور اس کے بانیوں کا کہنا ہے کہ وہ خواتین سے متعلق اور ان پر اثرانداز ہونے والے انتہائی اہم مسائل پر روشنی ڈال کر اس کے معنی کو عملی جامہ پہنائیں گے۔

نسرین محمد ابراہیم 'بلان میڈیا' کی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ پروجیکٹ کمیونٹی کو درپیش بہت سے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے ڈیزائین کیا گیا ہے۔ اس میں خواتین کو درپیش چیلنجوں پر توجہ دی جائے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے بارے میں رپورٹس سامنے لائی جائیں گی، کیونکہ یہاں کمیونٹی میں بہت سی کہانیاں ہیں اور وہ انہیں شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے اس لیے بلان ان کہانیوں کو سامنے لائے گا۔

تمام خواتین کی حیثیت سے بلان صومالیہ کے قدامت پسند معاشرے میں رکاوٹوں کو ختم کرنے کی ایک کرن ہے، جہاں عصمت دری، جنسی حملوں اور خواتین کے طبی مسائل جیسے امور کو عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

بلان کا کہنا ہے کہ وہ مرکزی دھارے کے میڈیا سے مقابلہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ خواتین کی آواز کو بلند کرنے اور مرد کےزیر تسلط معاشرے میں ایجنڈے کو متاثر کرنے کے لیے اپنا راستہ طے کرنا چاہتےہیں۔

صومالیہ میں ایک اور صحافی قتل
صومالیہ میں ایک اور صحافی قتل

فاتحی محمد احمد ڈپٹی ایڈیٹر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے اس میڈیا اوٹ لیٹ کے قیام کی وجہ یہ ہے کہ گرچہ مجموعی طور پر موغادیشو اور صومالیہ کے بیشتر علاقوں میں ایسے میڈیا آوٹ لیٹ ہیں جہاں مردا ور خواتین دونوں کام کرتے ہیں لیکن ان کا انتظام اور ملکیت مردوں کے پاس ہے، جہاں خواتین کے حالات اور ان کی ضروریات پر تفصیلی بحث نہیں ہوتی مثال کے طور پر خواتین کے خلاف تشدد پر گہرائی میں بات چیت نہیں ہوتی۔

احمد کا کہنا ہے کہ ان کے اسٹیشن کے مالکان منافع کمانے نہیں آئے۔ یہ پیسے کے لیے نہیں ہے، ہم اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنا ناچاہتے ہیں اور اسے بدعنوانی اور مردوں کی بدسلوکی سے پاک جگہ پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔

اس صنعت کےماہرین کا کہنا ہے کہ صرف خواتین کے لیے میڈیا ہاوس کا قیام ایک ایسے ملک میں جرات مندانہ قدم ہے جہاں اسلام پسند عسکری گروپ صحافیوں کو نقصان پہنچانے یا انھیں قتل کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔

صومالیہ میں ان خواتین صحافیوں کے لیے صورتحال اور بھی بدتر ہے جنھیں نیوز رومز میں جنسی ہراسانی ، دقیانوسی ثقافتی تصورات اور خاندان کے دباو کے ساتھ مرد ہم منصبوں کے مقابلے میں کم تنخواہ جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

ہندا جاما صومالی صحافیوں کے سنڈیکٹ میں صنفی امور کی سربراہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ریڈیو اسٹیشن کے لیے بہت سے ممکنہ چیلنجز ہیں،چونکہ ریڈیو صرف خواتین چلاتی ہیں اس لیے خواتین کو صومالی ثقافت سے چیلنجز کا سامنا کرپڑسکتا ہے۔ ا س کے علاوہ وہ کہتی ہیں کہ صومالی معاشرہ خواتین کے اکیلے کام کرنے یا ان کے صحافی کی حیثیت سے اکیلے کام کرنے کا عادی نہیں ہے اور زیادہ تر لوگ اس سے شعور ہی نہیں رکھتے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ مذہب کے لحاظ سے کچھ مولوی خواتین کومیڈیا میں بولنے کے قابل ہی نہیں سمجھتے۔

اس بات کا جواب جلد سامنے آجائے گا کہ کیا یہ در پیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ؟

بلان میڈیا پچیس اپریل سے اپنی نشریات کاآغاز کررہا ہے۔

XS
SM
MD
LG