اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطیع اللہ جان کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کر دی۔ عدالتی فیصلے کے بعد صحافی اب جوڈیشل کسٹڈی میں تصور ہوں گے۔
اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے صحافی مطیع اللہ جان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ مطیع اللہ جان اور صحافی ثاقب بشیر کو بدھ کی رات مبینہ طور پر نامعلوم افراد نے اٹھایا تھا۔ وائس آف امریکہ نے ثاقب بشیر سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے۔
مطیع اللہ جان کے صاحبزادے عبدالرزاق نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے والد کو نامعلوم گاڑی میں سوار نامعلوم افراد لے کر گئے ہیں اور ان سے اب تک کوئی رابطہ نہیں ہو رہا۔
کسی جمہوری معاشرے کے لیے، اظہار رائے کا حق اور معلومات تک رسائى کتنی اہم ہے۔۔اور پاکستان میں۔۔شہریوں کے اس جمہوری حق کے بارے میں۔کیا صورتحال ہے۔۔ویو تھری سسکٹی میں، اسداللہ خالد سے بات کرتے ہوئے فریڈم نیٹ ورک کے اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ یہ آئینی حق تو ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
ایوارڈ وصول کرنے کی تقریب میں انہوں نے کہا کہ چراغ راہ بننا ایک قابل فخر ذمہ داری کا کام ہے اور میری کہانی اس ذمہ داری کی قیمت کی ایک مثال ہے جو سچ بتانے کے لیے ادا کی جا سکتی ہے۔
سنجری، ایک 42 سالہ ایرانی، ایک سابق صحافی اور حقوق کے سر گرم کارکن تھے جنہوں نے 2009 سے 2013 تک وی او اے فارسی کے واشنگٹن بیورو میں کام کیا تھا ۔ وہ 2016 میں اپنے والدین کی دیکھ بھال کے لیے ایران واپس چلے گئے ۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کے دوران صحافت پر قدغنوں کی شکایات عام تھیں۔ لیکن کیا عبوری حکومت آنے کے بعد اب ملک میں صحافیوں کو بلا خوف و خطر کام کرنے کی اجازت ہے؟ بتا رہی ہیں ڈھاکہ سے وائس آف امریکہ کی سارہ زمان اس رپورٹ میں۔
روس کے کاروباری اخبار آر بی سی نے رواں ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ روسی عدالتی میں گوگل کے خلاف 17 روسی ٹی وی چینلز کے قانونی دعووں پر گوگل پر جرمانہ عائد کیا ہے جو 20 ڈیسیلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ فہم رقم ہے اور اس میں 34 صفر آتے ہیں۔
فریڈم نیٹ ورک کے سربراہ اقبال خٹک نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کے نفاذ کے لیے سیاسی عزم اور وسائل کی کمی کی وجہ سے صحافیوں کو ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس کی حالیہ جنگ کے دوران 128 صحافی و میڈیا ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان ہلاکتوں پر اسرائیل کیا کہتا ہے اور غزہ میں کوریج کے دوران میڈیا ورکرز کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟ بتا رہے ہیں تل ابیب سے ہریندر مشرا۔
"جب بھی اسرائیلی ڈرونز اور جنگی طیاروں کے نیچے سے گزر رہا ہوتا تھا یہی محسوس کرتا تھا کہ وہ کبھی بھی مجھ پر بمباری کر سکتے ہیں۔" یہ کہنا تھا طارق حجاج کا جو غزہ جنگ کی کوریج کر رہے تھے۔ جنگ کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ سال کیسا رہا؟ جانیے فائزہ بخاری کی اس رپورٹ میں۔
جون میں رہائی کے بعد عوامی سطح پر اپنے پہلے خطاب میں جولین اسانج کا کہنا تھا کہ "آج میں اس لیے آزاد نہیں ہوں کہ سسٹم نے مجھے آزادی دی بلکہ میں نے 'صحافت' کرنے کے جرم کو قبول کیا جس کے بعد مجھے رہائی ملی۔"
مزید لوڈ کریں
No media source currently available