پاکستان میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد دنیا اقتصادی اور خارجہ پالیسی میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور مستقبل میں خطے اور عالمی سطح پر ان کے اثرات بھی زیرِ بحث ہیں۔
امریکہ اور ایشیائی خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ روایتی طور پر پاکستان کی طاقتور فوج ملک کی خارجہ پالیسی کا تعین کرتی ہے لیکن سابق وزیرِ اعظم کے خارجہ پالیسی سے متعلق تند و تیز بیانیے نے ملک کے کئی اہم بین الاقوامی تعلقات کو متاثر کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق 2018 میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد عمران خان نے امریکہ کے خلاف تند و تیز بیانیہ اختیار کیا۔ روایتی طور پر ان کی خارجہ پالیسی میں چین کو اہمیت حاصل رہی، البتہ انہوں نے روس سے قربت بڑھانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا اور گزشتہ ماہ انہوں نے روس کا دورہ ایسے موقع پر کیا جب روسی افواج یوکرین میں کارروائی کا آغاز کرچکی تھیں۔
مبصرین کے مطابق ایک ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے پاکستان کو درپیش معاشی اور سیاسی چیلنجز دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں البتہ ان میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے یہ چند پہلو خطے اور بین الاقوامی سیاست اور تعلقات کے اعتبار سے خاص اہمیت رکھتےہیں۔
افغانستان
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فوج و خفیہ ادارے اور طالبان کے درمیان تعلقات میں ماضی کے مقابلے میں دوریاں آئی ہیں۔
طالبان افغانستان میں اقتدار تو سنبھال چکے ہیں لیکن انہیں معاشی اور مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے سنگین مسائل کا بھی سامنا ہے۔ اس کے علاوہ طالبان بین الاقوامی تنہائی کا شکار ہیں اور تاحال قطر ہی کو ان کا قریبی ترین پارٹنر قرار دیا جاسکتا ہے۔
رائٹرز سے بات کرتے ہوئے تھنک ٹینک سینٹر فار نیو امیریکن سیکیورٹی کے انڈو پیسفک سیکیورٹی پروگرام کی ڈائریکٹر لیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اب طالبان تک رسائی کے لیے پاکستان کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ اس کے بجائے اب قطر وہ کردار ادا کرسکتا ہے۔
حالیہ دنوں میں طالبان اور پاکستان کی فوج کے درمیان سرحدوں پر ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی حکام طالبان سے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور بلوچ مسلح تنظیموں سمیت ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کے لیے اصرار کرتے رہے ہیں جو پاکستان کے اندر تشدد کے واقعات میں ملوث ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے اندر ان گروہوں کی کارروائیوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
عمران خان خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے مقبول عوامی بیانیے کی وجہ سے دنیا کے دیگر رہنماؤں کے مقابلے میں طالبان کے زیادہ بڑے ناقد نہیں رہے۔ اپنے بعض بیانات میں انہوں ںے افغان طالبان کی تعریف بھی کی او ر خواتین کی تعلیم سے متعلق ان کی پالیسی کا دفاع بھی کیا۔
شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد مبصرین کا خیال ہے کہ ان کے لیے عالمی حالات کے تناظر میں خارجہ پالیسی سے متعلق مقبول بیانیہ اختیار کرنا آسان نہیں ہوگا۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر سے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے بھی اپنی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا ہے کہ شہباز شریف اپنے کام پر توجہ دینے والے منتظم کی شناخت رکھتے ہیں وہ کوئی مقبولیت پسند یا پاپولسٹ رہنما نہیں ہیں اور نہ ہی کرشماتی شخصیت ہونے کی شہرت رکھتے ہیں۔
کوگلمین کے مطابق شہباز شریف کو ملک کے موجودہ معاشی حالات میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات اور عمران خان کی قیادت میں حزبِ اختلاف کے دباؤ کا سامنا کرنا ہوگا۔
چین
پاکستان میں بننے والی نئی حکومت میں وہ دو بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی شامل ہیں جن کے ادوار حکومت میں عمران خان کے برسرِ اقتدار آنے سے پہلے ملک میں 60 ارب ڈالر سرمایہ کاری کے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کی بنیاد رکھی گئی اور کئی منصوبوں پر کام کا آغاز ہوا تھا۔
ملک کے نئے وزیرِ اعظم شہباز شریف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران چینی سرمایہ کاری کے ساتھ پنجاب میں کئی منصوبے بنے جن میں سی پیک کے تحت شروع اور مکمل ہونے والے پروجیکٹ بھی شامل تھے۔
ان کی جماعت کے سربراہ اور بڑے بھائی نواز شریف بھی چین کے ساتھ گہرے تعلقات اور ملک میں چینی سرمایہ کاری کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے دور میں بھی چین کو خارجہ پالیسی میں مرکزیت حاصل رہی البتہ ان کے ناقدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے دور میں سی پیک کے منصوبوں پر پیش رفت سست روی کا شکار رہی۔
شہباز شریف نے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے اپنے پہلے خطاب میں سی پیک کے منصوبوں کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی وزیرِ اعظم شہباز شریف کو مبارکباد کے پیغام میں سی پیک کی تعمیر پر مل کر کام کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ اس لیے مبصرین اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں سی پیک پر کام میں تیزی آئےگی۔
بھارت
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں جن ممالک کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ان میں بھارت سرِ فہرست ہے۔ افغانستان کی طرح بھارت سے متعلق خارجہ پالیسی کا تعین بھی پاکستان کی اسٹیبلشمںٹ کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان سرحدوں پر جنگ بندی کی وجہ سے کشیدگی میں کمی ضرور آئی ہے لیکن گزشتہ دو برس سے سفارتی گفت و شنید بند ہے۔
عمران خان نے بھارت میں ہونے والے 2019 کے انتخابات سے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کانگریس کے بجائے بی جے پی اور نریندر مودی کے کامیاب ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر پیش رفت کا امکان ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر پاکستان میں بھی تنقید کی گئی تھی۔
لیکن نریندر مودی نے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا۔ اس اقدام کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کے معاملے پر تنازع میں مزید شدت آگئی۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے، بھارت میں شہریت قانون کی منظوری اور مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے بعد سے عمران خان نے بھارتی ہم منصب پر شدید تنقید کرنا شروع کردی تھی۔ انہوں نے کئی مواقع پر نریندر مودی کا موازنہ ہٹلر سے کیا۔ ان بیانات اور سخت مؤقف کی وجہ سے بھی دونوں ممالک کے تعلقات کی سردمہری میں اضافہ ہوا۔
پاکستان اور بھارت کے سفارتی تعلقات پر نظر رکھنے والے بھارتی سیاسی تجزیہ کار کرن تھاپڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج نئی حکومت پر کشمیر میں مکمل جنگ بندی کے لیے کامیابی سے دباؤ ڈال سکتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر بھارت آمادہ ہو تو کشمیر کے معاملے پر پیش رفت ممکن ہے۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے ادوار میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے ناقدین ان پر بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھنے کا الزام بھی عائد کرتے آئے ہیں۔
شہباز شریف کے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے انہیں باضابطہ مبارک باد بھی دی ہے جس کا انہیں مثبت جواب دیا گیا ہے۔
البتہ نئی حکومت آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں کسی فوری پیش رفت کی توقع قبل از وقت ہوگی۔ حکومت کو چین اور بھارت کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں بھی اپنی پالیسی کو متوازن رکھنے کا چیلنج درپیش ہوگا۔
امریکہ
امریکہ سے تعلق رکھنے والے جنوبی ایشیائی امور کے ماہرین کے مطابق فی الوقت اس کا زیادہ امکان نظر نہیں آتا کہ پاکستان کی سیاسی تبدیلیاں صدر جو بائیڈن کی ترجیحات میں جگہ بنا پائیں گی۔
ان کے مطابق امریکہ کے صدر کے لیے سفارتی سطح پر یوکرین کا معاملہ اولین ترجیح ہے اور پاکستان میں کسی بڑے سیاسی بحران یا بھارت کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے سوا ان کے لیے حالیہ تبدیلیوں کی زیادہ اہمیت نہیں۔
امریکہ کے سابق سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیا رابن ریفل کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ کو کئی دیگر انتہائی اہم مسائل کا سامنا ہے۔
بعض دیگر مبصرین کا کہنا ہے جب تک پاکستان کی فوج خارجہ اور سلامتی امور کی پالیسی کو پس پردہ رہتے ہوئے کنٹرول کررہی ہے اس وقت تک ملک میں حکومت کی تبدیلی باعثِ تشویش زیادہ اہم نہیں ہے۔
صدر ٹرمپ کی قومی سیکیورٹی کونسل میں سینئر ڈائریکٹر برائے جنوبی ایشیا رہنے والی لیزا کرٹس کا کہنا ہے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کی افغانستان، بھارت اور جوہری ہتھیاروں سے متعلق پالیسیاں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اس لیے جب تک یہ امور پاکستانی فوج کے کنٹرول میں ہیں، امریکہ کے لیے پاکستان کے اندر آنے والی سیاسی تبدیلیاں زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے تناظر میں عمران خان کا دورۂ ماسکو تباہ کن تھا۔ اس لیے نئی حکومت کو اس کا ازالہ کرنے کے لیے ’کسی حد تک‘ اقدامات کرنا ہوں گے۔
عمران خان حالیہ سیاسی بحران میں تواتر سے یہ الزام عائد کررہے ہیں کہ ان کی دورۂ روس کے بعد امریکہ کی مداخلت کے باعث ان کی حکومت ختم ہوئی ہے۔ امریکہ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کے بعد وائٹ ہاؤس نے اپنے بیان میں انہیں مبارک باد دی ہے اور پاکستان میں جمہوریت، قانون کی بالا دستی کے اصولوں کی حمایت کے ساتھ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کو امریکہ کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
دوسری جانب شہباز شریف کو مبارک باد دینے والے سربراہان مملکت میں روس کے صدر پوٹن بھی شامل ہیں۔ عمران خان کے الزامات کے تناظر میں مقامی مبصرین روسی صدر کی مبارک باد کو دلچسپ پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔
اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں