بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کے شمال مشرقی علاقے جہانگیر پوری میں ہفتے کی شام کو ہندوؤں کے ایک مذہبی جلوس کے دوران شرکا کا مسلمانوں کے ساتھ تصادم ہوا جس کے نتیجے میں ایک عام شہری اور آٹھ پولیس اہل کار زخمی ہوئے۔
زخمیوں میں دہلی پولیس کا ایک سب انسپکٹر میدھا لال مینا بھی شامل ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ اسے گولی لگی ہے۔اتوار کی صبح متاثرہ علاقے میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی۔ پولیس کے مطابق حالات پر امن اور قابو میں ہیں۔پولیس نے 14 افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں۔
گرفتار شدگان میں ایک 21 سالہ شخص اسلم علی بھی شامل ہے جس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ اسی نے گولی چلائی تھی اور اس کے پاس سے پستول برآمد کر لی گئی ہے۔
پولیس کے مطابق 2020 کے فسادات کے سلسلے میں بھی اسے ملزم بنایا گیا تھا۔اسلم کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ وہ نابالغ ہے۔ انہوں نے پولیس کے سامنے اس کی پیدائش کا سرٹیفکیٹ بھی پیش کیا ہے جس کے مطابق اس کی عمر 17 سال ہے۔ گرفتار کیے جانے والے تمام 14 افراد مسلمان ہیں۔
مسجد پر زعفرانی پرچم لہرانے کا الزام
پولیس رپورٹ کے مطابق جب ہندوؤں کا جلوس جہانگیر پوری کے سی-بلاک میں ایک مسجد کے پاس پہنچا تو انصار نامی ایک شخص کی جلوس کے شرکا سے بحث ہوئی۔ بات بہت زیادہ بڑھ گئی اور پھر دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔
ایک مقامی خاتون نور جہاں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا پہلی بار دیکھا گیا کہ مسلح جلوس نکالا گیا۔ انہوں نے مسجد سے پتھراؤ کے الزام کی تردید کی۔
سی-بلاک کے ایک 27 سالہ شخص مستان نے انگریزی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ افطار کے انتظام کے لیے گھر سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ جلوس میں شامل لوگ ’بھارت میں رہنا ہوگا جے شری رام کہنا ہوگا‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
بعض نشریاتی اداروں کی رپورٹس میں دکھایا گیا ہے کہ جلوس میں شامل بعض افراد مسجد میں داخل ہوئے۔ ان میں سے کچھ مسجد کی چھت پر چڑھ گئے اور وہاں انہوں نے زعفرانی پرچم لہرا دیا جس پر وہاں موجود مسلمانوں نے اعتراض کیا اور پھر پتھراؤ ہونے لگا۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان بھی مسجد کے اندر داخل ہونے اور اس کی چھت پر زعفرانی پرچم لہرانے کی تصدیق کرتے ہیں۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے متاثرہ مقامات کے رہائشیوں سے جو اطلاعات حاصل کی ہیں، ان کے مطابق ہندوؤں کا ایک گروپ دن میں دو بار مسجد کے پاس آیا تھا۔ اس کے بعد شام میں ساڑھے چھ بجے یعنی افطار کے وقت پھر آیا اور اس میں شامل کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور کچھ لوگوں نے چھت پر چڑھ کر زعفرانی جھنڈا لہرایا۔
دہلی پولیس کے اسپیشل کمشنر (لا اینڈ آرڈر) دیپیندر پاٹھک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیس درج کرکے اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ کرائم برانچ اور اسپیشل سیل نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے10 ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ جب کہ جلوس میں شریک راکیش نامی ایک شخص کا الزام ہے کہ جلوس پرامن انداز میں نکل رہا تھا۔ جب وہ مسجد کے پاس پہنچا تو پتھراؤ کیا گیا۔
صرف مسلمانوں کی گرفتاری کیوں؟
مقامی باشندوں نے مسلمانوں کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔ ان کے مطابق جلوس کے شرکا جو کہ ہتھیاروں سے لیس تھے، اشتعال انگیز نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے مسجد کے سامنے جب ہنگامہ کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کی جانب سے اعتراض کیا گیا اور پھر انہوں نے حملہ کیا لیکن پولیس نے صرف مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے صرف مسلمانوں کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ ہنگامے کا آغاز اس وجہ سے ہوا کہ لوگ مسجد میں داخل ہوئے۔ اس لیے پہلے ان لوگوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کے تہوار اب مسلح تہواروں میں بدل گئے ہیں۔ اب وہ لوگ تلوار، ترشول اور دیگر ہتھیار لے کر جلوس نکالتے ہیں۔ اس کے علاوہ سینکڑوں موٹر سائیکلز بھی جلوس میں شامل ہوتی ہیں۔
انہوں نے جہانگیر پوری کے مقامی مسلمانوں کے اس الزام کی تائید کی کہ پولیس نے یک طرفہ کارروائی کی ہے۔ ان کے مطابق جہاں جہاں پرتشدد واقعات پیش ہو رہے ہیں وہاں پولیس حکومت کے اشارے پر یک طرفہ کارروائی کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ فروری 2020 میں بھی دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں فساد پھوٹ پڑا تھا۔ جس میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس دوران کہا گیا تھا کہ باہر کے لوگوں نے فساد برپا کیا تھا۔ جہانگیر پوری میں ہونے والے واقعے میں بھی باہر کے لوگوں کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔
اس سوال پر کہ ملک کے مختلف علاقوں میں ہونے والے حالیہ تشدد کی کیا وجہ ہے؟ ظفر الاسلام خان نے اس کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
ان کے مطابق یہ لوگ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ نفرت کے بغیر وہ انتخابات میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس لیے یہ سب کچھ کرایا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں یہ سب 2024 کے عام انتخابات کے پیش نظر ہو رہا ہے اور ایک منظم منصوبے کے تحت ہو رہا ہے اور اس کا مقصد نفرت کا ماحول قائم کرکے الیکشن جیتنا ہے۔
انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے واقعات پارلیمانی انتخابات تک چل سکتے ہیں۔ بقول ان کے یہ حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے اسی لیے وہ عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرانا چاہتی ہے۔
انہوں نے دہلی اور دیگر مقامات پر پیش آنے والے واقعات کے موقع پر پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں پر سوال اٹھایا اور کہا کہ پولیس وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے ماتحت ہے اور انہی کے اشارے پر وہ یک طرفہ طور پر کام کر رہی ہے۔
دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال نے جلوس کے دوران پتھراؤ کی مذمت کی اور کہا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے دونوں فرقوں کے لوگوں سے امن و امان کے قیام کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہلی پولیس چونکہ مرکزی حکومت کے تحت آتی ہے۔ اس لیے امن و امان کے قیام کی ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہے۔
شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت کے مطابق انتخابی فائدہ اٹھانے کے لیے ملک کا ماحول خراب کیا جا رہا ہے۔
بی جے پی کا مؤقف
ادھر بی جے پی کے متنازع رہنما کپل مشرا، دہلی بی جے پی کے صدر آدیش گپتا اور سابق صدر و رکن پارلیمنٹ منوج تیواری نے الزام لگایا ہے کہ ایک سازش کے تحت تشدد برپا کیا گیا ہے۔ بقول ان کے اس میں بنگلہ دیشی درانداز اور روہنگیا پناہ گزین شامل ہیں۔
کپل مشرا کے مطابق جہانگیر پوری میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آباد ہیں۔ ان کی شناخت کرکے ان کے مکانات کو بلڈوزر سے منہدم کر دینا چاہیے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہنس راج ہنس نے اس واقعے کو بین الاقوامی سازش بتایا اور کہا کہ یہ بھارت کو بدنام کرنے کے لیے کرایا گیا ہے۔
دریں اثنا کرناٹک کے ہبلی شہر میں ایک شخص ابھیشیک ہیرے مٹھ کی جانب سے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد پوسٹ کیے جانے کے خلاف مسلمانوں نے پرانے پولیس اسٹیشن کے سامنے مظاہرہ کیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق انہوں نے تھانے پر پتھراؤ کیا جس میں ایک انسپکٹر سمیت چار پولیس اہل کار زخمی ہو گئے۔مظاہرین نے کئی پولیس گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچایا۔
پولیس نے ابھیشیک کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس کے علاوہ تشدد برپا کرنے کے الزام میں 40 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔