رسائی کے لنکس

نیب کا ادارہ مثالی تو پہلے بھی نہ تھا، اب کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا، تجزیہ کار


پاکستان قومی اسمبلی کی عمارت۔ (فائل فوٹو)
پاکستان قومی اسمبلی کی عمارت۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں پارلیمان نے گزشتہ ہفتےنیب سیکنڈ ترمیمی بل کی منظوری دی ہے، جس کے تحت احتساب کرنے والے اس وفاقی ادارے کے اختیارات میں کمی کی گئ ہے۔ ان ترامیم کے بارے میں ماہرین کے تاثرات ملے جلے ہیں۔

بریگیڈیر فاروق حمید نیب کے سابق ڈائریکٹر انویسٹیگیشن اور ان امور کے تجزیہ کار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہی ترامیم ہیں جو موجودہ حکومت اس وقت کرنا چاہتی تھی جب وہ اپوزیشن میں تھی، یعنی بقول ان کے، نیب کو بالکل ایک بے اختیار ادارہ بنا دیا جائے اور وہ انہوں نے کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ'' نیب کی کارکردگی پہلے ہی کوئی مثالی نہ تھی، اور اب تو وہ بالکل کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔''

گزشتہ تین برسوں کے دوران نیب نہ تو کوئی قابل ذکر ریکوری کرا سکا، نہ ہی کسی ایک بھی ہائی پروفائل کیس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا سکا۔ اور، اس کا مطلب، بقول بریگیڈیر فاروق حمید، یہ ہوا کہ بدعنوان اشرافیہ نے نظام کو شکست دے دی ہے۔

اس وقت موجودہ پارلیمنٹ یا قومی اسمبلی میں اکثریتی پارٹی یعنی PTI سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور عمران خان کی حکومت پر عدم اعتماد کے بعد اس کے ارکان کی بھاری اکثریت استعفے دیکر جاچکی ہے اور اس کے منحرف ارکان جو پارلیمنٹ میں باقی رہ گئے ہیں ان کی حیثیت یا رکنیت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ہمخیال ارکان ہی باقی رہ گئے ہیں جو آپس ہی میں حکومت اور اپوزیشن کا رول ادا کر رہے ہیں۔

اسی کے سبب، اکثر سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اس پارلیمنٹ کی نمائندہ حیثیت بھی مشکوک ہوگئی ہے اور اس کی جانب سے ہونے والی قانون سازی پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔

لیکن، قانوں اور آئین کے ایک ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل قاضی مبین سمجھتے ہیں کہ اس ترمیم کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ کلاز ایف کے تحت فیڈرل یا صوبائی قانون کے مطابق قائم کی گئی ریگولیٹری اتھارٹی کے تمام معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال لیا گیا ہے۔اور یوں ریگولیٹری اتھارٹی کو نیب کے قانون سے مکمل استثنیٰ دے دیا گیا ہے، جب کہ بقول ان کے، حقیقت یہ ہے کہ ساری بدعنوانیاں یا غیر قانونی کام اسی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے کرائے جاتے ہیں۔

اسی طرح بےنامی پراپرٹی کے سلسلے میں بھی جو ترمیم کی گئی ہے اور اس کی تعریف کو اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ نیب کے لیے اس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔

لیکن قاضی مبین نے کہا ہے کہ اس میں بعض اچھی باتیں بھی ہیں، جیسے کہ پہلے نیب کو اختیار تھا کہ وہ نوے روز تک ملزم کو اپنی تحویل میں رکھ سکتی تھی، اب اس مدت کو گھٹا کر 14 روز کردیا گیا جیسا کہ دوسرے جرائم کے سلسلے میں ہے۔اسی طرح ملک کے مروجہ کرمنل قوانین اور ان کے تحت طریقہ کار کے مطابق نیب کوکسی بھی ملزم کو چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔

پاکستان نے2003ء میں کرپشن کے خلاف اقوام متحدہ کے کنونشن پر دسخط کیے تھے اور بریگیڈیر فاروق حمید کا کہنا تھا کہ نیب کے قانوں میں یہ ترامیم جو اسمبلی میں بغیر کسی بحث کے پیش کیے جانے کے تقریبا فوری بعد منظور کر لی گئیں۔ اور منظور کرنے والوں میں اکثر وہ لوگ بھی شامل تھے جن پر اس وقت نیب میں مقدمات چل رہے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کے اس کنونشن کی خلاف ورزی ہے جس پر پاکستان دو ہزار تین میں دستخط کر چکا ہے۔

اسی طرح نیب کے چیرمین اور ڈپٹی چیرمین کی تقرریوں اور معیاد ملازمت کے حوالے سے کی گئی ترامیم میں بھی، ماہرین کے بقول، کافی گنجائشں رکھ لی گئ ہے۔

یہ ماہرین کہتے ہیں کہ نیب کا مقصد سیاستدانوں اور اعلیٰ عہیداروں کی بد عنوانیوں پر نظر رکھنا، انہیں پکڑنا اور سزا دلوانا ہے، تاکہ آئندہ کےلیے کرپشن کو شجر ممنوعہ بنایا جا سکے۔ مگر جب نیب کے عہدیدار اپنی تقرریوں کےلیے ان ہی سیاستدانوں کے مرہون منت ہونگے تو وہ کہاں سے احتساب کر سکیں گے۔ اس لیے نیب کی گزشتہ کئی برسوں کی کارکردگی دنیا کے سامنے ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نیب عہدیداروں کا تقرر کسی غیر جانبدار اتھارٹی کی جانب سے ہونا چاہئے، جس میں سپریم کورٹ کا اہم رول ہو۔ تب اس سے نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں احتساب کی تاریخ

یوں تو پاکستان میں ایوب خان کے دور میں سیاست دانوں پر پابندیاں لگائی گئں۔ بیوروکریٹس کو نکالا گیا۔ پھر یحییٰٰ خان کے دور میں بھی بیورو کریٹس کو نکالنے کا سلسلہ جاری رہا.

پھر 1996 میں بینظیر حکومت کی برطرفی کے بعد ملک معراج خالد کی قیادت میں بننے والی نگراں حکومت نے جس کا کام انتخابات کرانا تھا اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ایک احتساب کمیشن قائم کیا، جس کے بعد انتخابات ہوئے اور اسوقت کی مسلم لیگ نواز کی حکومت نے احتساب ایکٹ 1997 کی ترمیم کے ذریعے احتساب کمیشن کی توثیق کی۔ اور تحقیقات کے اختیارات چیف احتساب کمشنر سےلے کر ایک احتساب سیل کو دے دیے گئے جو وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں قائم کیا گیا اور جس کے سربراہ وزیر اعظم کے قریبی معتمد سینیٹر سیف الرحمان تھے۔

اس کے بعدفروری 1998 میں قانوں میں ایک صدارتی آرڈیننس کے تحت مزید ترامیم کی گئیں اور اس کا نام احتساب سیل سے بدل کر احتساب بیورو کر دیا گیا۔ پھر 1999 میں یہ ادارہ قومی احتساب بیورو یا نیب بنا۔

موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے تمام اقدامات میں ان تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت اور اتفاقِ رائے موجود ہے جو پاکستان میں اکثریت کی نمائندگی کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG