امریکہ نے بارودی سرنگوں کا استعمال محدود کرنے کا فیصلہ کیاہے جس کے بعد وہ اپنے نیٹو اتحادیوں اور دنیا کے اکثر ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا جہاں پہلے ہی اس کا اطلاق کیا جا چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام صدر جو بائیڈن کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک ،بچوں سمیت عام لوگوں کی زندگیوں پر بارودی سرنگوں کے غیر متناسب اثرات جاری رہتے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے 1991 کی خلیج جنگ کے بعد سے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگیں نہیں بچھائی گئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’’صدر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمیں بارودی سرنگوں کے استعمال کو دنیا بھر میں کم کرنا ہوگا‘‘۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق اس فیصلے کا اطلاق جزیرہ نما کوریا پر نہیں ہوگا، جس کی وجہ وہاں کے منفرد حالات اور جنوبی کوریا کو تحفظ فراہم کرنے کا امریکی عزم ہے۔
اس فیصلے کے بعد امریکہ کی پالیسی بین الاقوامی معاہدے ’اوٹووا کنونشن‘ سے ہم آہنگ ہو جائے گی، جو اینٹی پرسنل بارودی سرنگوں کے استعمال، ذخیرہ اندوزی، پیداوار اور منتقلی پر پابندی عائد کرتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ کوریا کی سرزمین کے علاوہ ،امریکہ اپنی تمام بارودی سرنگیں تلف کرنے کا کام بھی شروع کرے گا۔
اسی حوالے سے منگل کو امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک ٹیلی کانفرنس میں بات کرتے ہوے وزارت کے سینئر عہدہ دار سٹینلی براون نے بتایا کہ امریکہ کے پاس تقریبا تیس لاکھ بارودی سرنگیں موجود ہیں، جبکہ آخری بار امریکہ نے اُنکا استعمال 1991 میں خلیج کی جنگ کے دوران اور ایک بار 2002 میں افغانستان میں کیا تھا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکی فوج کیلئے بارودی سرنگوں کے استعمال پر یہ دلیل دیتے ہوئے پابندیوں میں نرمی کی تھی کہ ایسی پابندی امریکی فوج کو "شدید نقصان" میں ڈال سکتی ہے۔اُنکے اِس فیصلے پر ہتھیاروں کے کنٹرول کے حامیوں نے تنقید کی تھی۔ اس سے پہلے صدر اوباما کی انتظامیہ نے دو ہزار چودہ میں اعلان کیا تھا کہ امریکہ نہ تو بارودی سرنگیں بنائے گا یا حاصل کرے گا،اور نہ ہی موجودہ امریکی ذخیرے کو تبدیل کیا جائے گا۔