روسی صدر ولادی میر پوٹن اور ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نےپانچ اگست کو ہونے والی اپنی ملاقات میں ٹرانسپورٹ ، زراعت اور تعمیراتی صنعت میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
کریملن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ،" موجودہ علاقائی اور عالمی چیلنجوں کے باوجود، راہنماؤں نے روس اور ترکی کے تعلقات میں فروغ کے مشترکہ عزم کا اعادہ کیا۔ " روس نے نے مزید کہا کہ پوٹن اور ایردوان تجارت میں اضافے اور اقتصادی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر متفق ہوگئے۔
خبر رساں ایجنسی تاس نے پوٹن اور ایردوان کے مشترکہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے ، روسی اناج کی بلا روک ٹوک برآمد سمیت، یوکرینی اناج کی برامد ات سے متعلق استنبول معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
مشترکہ بیان کے مطابق پوٹن اور ایردوان نے شام میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کام کرنے کے عزم کی بھی تصدیق کی ۔
خبر رساں ایجنسی انٹر فیکس نے روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے روسی گیس کے لئے کچھ ادائیگیاں روبلز میں کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔
توقع تھی کہ مذاکرات میں یوکرین میں جنگ کے خاتمےاور شام میں ترکی کی دراندازی کے امکانات جیسے موضوعات بات چیت میں غالب رہیں گے ۔ بحیرہ اسود میں یوکرینی اناج کی ترسیل کی بحالی سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک معاہدے کیلئے، اپنی کامیاب ثالثی کے ذریعہ مدد کے بعد ایردوان اس بات چیت کے لئے سوچی پہنچے تھے
بحیرہ اسود کے سیاحتی مقام سوچی میں ہونے والی میٹنگ چار گھنٹے تک جاری رہی جو ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں پوٹن اور اردوان کے درمیان دوسری ملاقات تھی ۔
ملاقات کے آغاز میں پوٹن نے ایردوان کو بتایا کہ وہ تجارت اور اقتصادی تعلقات بڑھانے کے کسی معاہدے پر دستخطوں کی توقع کر رہے تھے ۔ جب دونوں راہنما مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو پوٹن نے کہا،" مجھے امید ہے کہ آج ہم اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں پیش رفت کے بارے میں کسی متعلقہ میمورینڈم پر دستخط کر سکیں گے "
ترک لیڈر ، جو یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ اپنے گرمجوش تعلقات کو 24 فروری کو کریملن کی جانب سے شروع کی گئی جنگ کے خاتمے کیلئےاستعمال کرنے کی کوشش کر چکے ہیں ، اپنے میزبان کو بتایا کہ انہیں امید تھی کہ وہ دونوں دوطرفہ تعلقات میں " ایک مختلف باب کا آغاز کریں گے۔
ترکی کے سرکاری نشریاتی ادار TRTے کے مطابق، شمالی شام میں کرد ملیشیا پر حملہ کرنے کے لیے انقرہ کی مجوزہ فوجی مداخلت بھی بحث کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے۔
ماسکو نے، جو شام کی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کی پشت پناہی کرتا رہا ہے، حال ہی میں اس طرح کے کسی حملے کے خلاف مشورہ دیا تھا۔
ان دونوں ملکوں کے تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے، ڈوور نیوز پورٹل کی تجزیہ کار الہان ازگل کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے معاہدے کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے میں اردگان کی کامیابی اور سوچی کی میٹنگ، ترکی کے مغربی اتحادیوں کو ترک رہنما کے بارے میں ایک طاقتور پیغام بھیجتی ہے۔" اس سے بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر ان کے اس تاثر کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے جو پریشانیاں پیدا کرنے والے ایک شخص کا ہے ۔ وہ اب بھی یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پوٹن کے ساتھ سودے بازی کر سکتے ہیں اور وہ امریکہ اور بائیڈن انتظامیہ کو یہ بتا رہے ہیں کہ پوٹن اردوان کے ایک قریبی اتحادی اور دوست ہیں، وہ پوٹن سے مہینے میں دو بار مل سکتے ہیں۔ "
بون یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر اور ترکی اورروس کے تعلقات کے ماہر ،زاؤر گاسیموف کا کہنا ہے کہ یوکرینی تنازعے کے لئےانقرہ کی جانب سے متوازن رویہ ، اور اس کے ساتھ ساتھ، اناج کا معاہدہ ،روس اور ترکی کے تعلقات کو مزید گہرا کرے گا۔ ’ اس وقت ترکی اور روس کے تعلقات کا، یوکرین میں جاری جنگ کے ساتھ یقینأ ایک تعلق ہے۔ یوکرین کی گندم کی برآمدات خطے کے لیے ایک نیا باب ہیں ، اور ایک ثالث کی حیثیت سے، ترکی کافی اہم کردار ادا کررہا ہے۔ اس کے علاوہ یوکرین اور ترکی کے درمیان قریبی فوجی تعاون اور روس کے خلاف تعزیرات میں ترکی کی عدم شمولیت، ایسے عوامل ہیں جو ماسکو اور انقرہ کے لیے اہمیت کے حامل ہیں ۔ ‘
ترکی اور روس کے تعلقات، شمالی افریقہ سے مشرق وسطیٰ، اور قفقاز تک مخاصمتوں اور تعاون کے امتزاج کا ایک تانا بانا ہیں ۔ توانائی کے معاملے میں بھی دونوں کے درمیان شراکت داری گہری ہو رہی ہے۔
تجزیہ کار ازگل کا کہنا ہے کہ ایردوان کو امید ہے کہ سوچی میں ہونے والی ملاقات سے پوٹن کے ساتھ شام پر موجود تعطل کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ترک رہنما، ان شامی کرد فورسز کے خلاف ایک بڑی کارروائی شروع کرنا چا ہتے ہیں، جن پر انقرہ ، اپنے ملک کے اندر ہونے والی شورش سے منسلک ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔
ازگل کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ دو ہفتےقبل تہران میں ہو نے والی ملاقات میں ایردوان وہ حاصل نہیں کرسکے جو وہ پوٹن سے چاہتے تھے، یعنی شمالی شام میں، ترکی کی دراندازی کی اجازت، جس کے لئے وہ کھلم کھلا دو مقامات، تل رفعت اور منبج کے نام لیتے ہیں۔" زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ شمالی شام میں اس نوعیت کے کسی فوجی اقدام کے امکان کی تلاش میں ہیں ‘‘
تجزیہ کار گیسموف کا کہنا ہے کہ پوٹن شام میں ترکی کی بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی پر محتاط ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ دونوں رہنما اختلافات سے عہدہ برآ ہونےکا تجربہ رکھتے ہیں ۔ "یقینی طور پر، ہمیں دونوں جانب کچھ عدم اطمینان نظر آتاہے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کے لیے بہت زیادہ آمادگی بھی۔"
بات چیت کے لیے اس آمادگی اور خطے بھر میں مشترکہ مفادات کی بڑھتی ہوئی فہرست کا مطلب ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ایسی ملاقاتیں ایک معمول بن سکتی ہیں۔