رسائی کے لنکس

آنگ سان سوچی کی سزا میں مزید چھ سال کا اضافہ


ا آنگ سان سوچی ، میانمار کی معزول رہنما
ا آنگ سان سوچی ، میانمار کی معزول رہنما

میانمار میں ایک قانونی اہلکار نے بتایا ہے کہ فوج کے زیر اقتدار ملک کی ایک عدالت نے ملک کی معزول رہنما آنگ سان سوچی کو پیر کے روز بدعنوانی کے مزید الزامات میں مجرم قرار دیتے ہوئے ان کی ابتدائی 11 سال قید کی سزا میں چھ سال کا اضافہ کر دیا ہے۔

اس مقدمے کی سماعت بند دروازوں کے پیچھے ہوئی، جس میں میڈیا یا عوام کی رسائی نہیں تھی، اور سوچی کے وکلاء کو کارروائی کے بارے میں معلومات کو ظاہر کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

پیر کو ہونے والے بدعنوانی کے چار مقدمات میں، سوچی پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ کی قیمتوں سے کم قیمت پر سرکاری زمین کرائے پر دی اور خیراتی مقاصد کے لیے عطیات سے ایک رہائش گاہ بنائی۔ سوچی کو چار مقدمات میں سے ہر ایک کے لیے تین سال کی سزا سنائی گئی، لیکن ان میں سے تین کی سزائیں بیک وقت سنائی جائیں گی، جس سے انہیں مجموعی طور پر مزید چھ سال قید ہو گی۔

انگ سان سوچی نے ان تمام الزامات سے انکار کر دیاہے ، اور توقع کی جارہی ہے کہ ان کے وکلا اس کے خلاف اپیل کریں گے ۔

فروری 2021 میں فوج کی جانب سے سوچی کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں حراست میں لینے کے بعد پہلے ہی مقدموں میں انہیں بغاوت، بدعنوانی اور دیگر الزامات میں 11 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان پر اور ان کے اتحادیوں کے خلاف متعدد الزامات فوج کے اقتدار پر قبضے کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش ہے جبکہ فوج کے اگلے سال الیکشن کرانے کے وعدے سے پہلے انہیں سیاست سے ہٹا یا ہ جا رہا ہے۔

قانونی اہلکار، جس نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط رکھی کیونکہ وہ معلومات جاری کرنے کا مجاز نہیں تھا اور حکام کی طرف سے سزا کا خدشہ تھا ،انہوں نے بتایا کہ سو چی اور ان کے ساتھی مدعا علیہان نے تمام الزامات کی تردید کی ہے اور توقع ہے کہ ان کے وکلاء آنے والے دنوں میں اپیلیں دائر کریں گے۔

سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی پارٹی اور ان کی حکومت کے دیگر سرکردہ ارکان کو بھی گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ۔ حکام نے تجویز دی ہے کہ وہ اگلے انتخابات سے قبل پارٹی کو تحلیل کر سکتے ہیں۔

فوج نے یکم فروری دو ہزار اکیس کو اقتدار پر قبضہ کرکے ان سانگ سوچی کو حراست میں لے لیا۔یہ وہ دن تھا جب ان کی پارٹی نے نومبر 2020 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد دوسری پانچ سالہ مدت کا آغاز کرنا تھا ۔ فوج نے کہا کہ اس نے اس لئے یہ کارروائی کی کیونکہ ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر فراڈ ہوا تھا، لیکن آزاد انتخابی مبصرین کو کوئی بڑی بے ضابطگی کے اثار نہیں ملے۔

فوج کے قبضے نے ملک بھر میں سڑکوں پر ہونے والے پرامن مظاہروں کو جنم دیا ،جسے سیکورٹی فورسز نے مہلک طاقت کا استعمال کرکے انہیں کچل دیا، اس کے نتیجے میں مسلح مزاحمت شروع ہوئی جسے اقوام متحدہ کے بعض ماہرین اب خانہ جنگی سے تعبیر کرتے ہیں۔ فوجی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا ہے جس میں من مانی گرفتاریاں اور قتل، تشدد، اور فوجی کاراوائیاں شامل ہیں ،جن میں عام شہریوں پر فضائی حملے اور پورے گاؤں کو نذر آتش کرنا شامل ہے۔

77 سالہ سوچی تین دہائیوں سے زائد عرصے سے میانمار میں فوجی حکمرانی کی مخالفت کا عکاس رہی ہیں۔ انہوں نے گھر میں نظربند رہتے ہوئے 1991 کا امن کا نوبل انعام جیتا تھا۔

سویلین حکومت کے رہنما کے طور پر ان کے پانچ سال جبر اور فوجی غلبے سے گزرے ، باوجود اس کے کہ یہ 1962 کی بغاوت کے بعد میانمار کا سب سے زیادہ جمہوری دور تھا۔

سوچی پر انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت مجموعی طور پر 11 الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں سے ہر ایک کو 15 سال قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔

(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)

XS
SM
MD
LG