مستنصر حسین تارڑ سے جب پوڈ کاسٹ کے لئے وقت نکالنے کی درخواست کی، تو دنوں یہی سوچتی رہی کہ ان کے لئے ایسا کیا کہوں گی، جو ان کی شخصیت اور تصنیفات کا احاطہ کر سکے۔
کبھی پیار کے پہلے شہر کی پاسکل سے ملوایا ، تو کبھی ماسکو کی سفید راتوں کا احوال سنایا ، کبھی وہ اندلس میں اجنبی رہےتو کبھی ہزاروں راستوں کی سمت بتائی ، کبھی تیری تلاش میں نکلے تو کبھی غار حرا میں ایک رات کی داستان قلمبند کی، بہاؤ سے لیکر خس و خاشاک زمانوں تک، راستے کی نشانیوں کو قلم کے سپرد کرتے عمر گزار دینے والے، درجنوں کتابوں کے مصنف مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی زیادہ نہیں لکھا۔
’’میں نے جوکیا، جانفشانی سے کیا۔ کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا۔ کبھی کسی سیاسی پارٹی سے تعلق بناتے کوئی عہدہ نہیں لیا ۔ پوری زندگی لکھنا لکھانا ہی پیشہ رہا‘‘ ۔
وہ جنوبی ایشیا کے عظیم مصنفین کرشن چندر ، منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور روسی مصنف ٹا لسٹائی کا حوالہ دیتے ہیں، جو ان سے زیادہ تحریریں چھوڑ گئے ۔کیونک بقول ان کے " انہوں نے مستقل لکھا" ۔
ٹیلی ویژن پر صبح کی نشریات منفرد انداز میں پیش کرنے کے حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کا شمار بانیوں میں ہوتا ہے۔
’’ بانی ہونے کے لئے کسی بڑی ذہانت کی ضرورت نہیں‘‘، انہوں نے دوبارہ بے نیازی کی چادر اوڑھی، پھر کہنا شروع کیا، ’’لیکن وہ کوئی تاریخ کا لمحہ ہوتا ہے جہاں وہ شخص چن لیا جاتا ہے اور نصیب کی سپاٹ لائیٹ اس کے حصے میں آ کر ٹھہر جاتی ہے‘‘ ۔
وہ کہتے ہیں ، ایک کامیاب میزبان کو اپنے سننے اور دیکھنے والوں سے تعلق بنانے کے لئے بیرونی سہاروں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنی شخصیت کا اعتبار قائم کرکے دیکھنے والوں سے تعلق بناتا ہے ۔
تارڑ صاحب کی عمر اس وقت پاکستان کی عمر کے پچھتر سالوں سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ پاکستان سے اپنی محبت کا ذکر کرتے کہتے ہیں، " محبت تو سات برس کی عمر میں شروع ہوئی"۔
تارڑ صاحب نے کئی سال پہلے اپنے ناول’’بہاؤ‘‘ میں جنوبی ایشیا کی دھرتی کو درپیش ماحولیاتی خطرات کی نشاندہی کر دی تھیں۔ آج کے دور کی نسل اس ناول کو پڑھے تو گویا کسی کشف یا ’غیب سے آئے مضمون‘ کے زیر اثر لکھی ہوئی اس پیش گوئی کا درجہ رکھنے والی کتاب کو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
’’بہاؤ اس وقت لکھا گیا، جب ابھی اس موضوع پر بات نہیں ہوتی تھی لیکن مشاہدہ اور دیکھنے والی آنکھ ایسا ادراک کر لیتی ہے‘‘۔ انہوں نے بتایا۔
پھر تارڑ صاحب عباسی دور حکومت میں خطہ فارس کے صوفی اور شاعر منصور بن حلاج کا حوالہ دینے لگے، جنہوں نے "اناالحق" یعنی "میں سچ ہوں" کا نعرہ لگایا اوربعض تاریخی روایات کے مطابق تختہ دار پر چڑھائے گئے ۔
’’حق کا ادراک انسان کے اندر ہوتا ضرور ہے اور کبھی اس کی قیمت بھی چکانا پڑتی ہے، منصور بن حلاج کی طرح جو سب کے بس کی بات نہیں ۔ فریدالدین عطار کے پرندوں کا سچ بھی لکھنے والوں کے اندر ہوتا ہے ‘‘۔
فرید الدین عطار ایک دوسرے فارسی شاعر تھے ، جن کی کتاب "منظق الطائر" ان کے دو اہم مجموعوں میں سے ایک ہے۔
مستنصر صاحب کہتے ہیں کہ ’’ لکھنے والے کی نظر اور مشاہدے کا وسیع ہونا ضروری ہے، ہر طبقے کی سوچ اور انداز فکر کی پہچان کے بغیر کامیاب تحریر قلم بند کرنا ممکن نہیں ۔ انسان کا ارتقائی عمل جاری رہتا ہے ۔ وقت کے تقاضوں کے تحت تبدیلی بھی آتی ہے لیکن قدم آگے بڑھتے ضرور ہیں ۔‘‘
میرے ’’ٹائم ٹنل‘‘ میں جانے کے سوال پر انہوں نے کچھ دلچسپ باتیں کی، جنہیں سننے کے لئے آپ کو میری پوڈ کاسٹ پر کلک کرنا ہی پڑے گا ۔ پوڈ کاسٹ سن کرہمارے یو ٹیوب چینل پر ضرور بتایئے آپ کو تارڑ صاحب کی باتوں نے ان کی کون سی کتاب پڑھنے پر آمادہ کیا؟ ۔