افتخار عارف کے بارے میں کچھ کہنے کا سوچا تو الجھ گئی ، کیا کہوں اور کہاں سے شروع کروں؟ کیا میں آپ کو پی ٹی وی کے پروگرام کسوٹی اور ان دو شاندار لوگوں میں سے ایک کی یاد دلاؤں، جو اکثر ایسی چیزوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے جو عام آدمی کی آنکھ سے پوشیدہ رہتی ہیں، یا ریڈیو پاکستان کی ورلڈ سروس کے ڈیوٹی روم میں 89 ء یا 90 ء ہونے والی ملاقات سے شروع کروں،جو دہائیوں پر محیط دوستی کا آغاز تھا۔
بہت کم ادبی شخصیات کو افتخار عارف جیسے اعلیٰ ترین اعزازات ملے ہیں۔ ہلال امتیاز، ستارہ امتیاز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور بہت سے دیگر اعزازات رکھنے والے اس شاعر اور دانشور نے ان تمام جگہوں کے ادبی منظر کی رہنمائی کی، جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ وائس آف امریکہ کے لئے پاڈ کاسٹ شروع کرنے کا موقعہ ملا تو ذہن میں پہلا نام افتخار عارف کا ہی ابھرا ۔
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے، جس کا وارث ہوں، اسی خاک سے خوف آتا ہے، جیسے شعر لکھنے والے افتخار عارف نے ریڈیو پاکستان سے خبروں کا آغاز کیا، ٹیلی ویژن کے لئے معلوماتی پروگرام کی میزبانی ہو، یا بڑے اداروں کی نظامت اورملک کے علمی اور ادبی منظر نامے میں ان کا حصہ۔ افتخار عارف اپنے گزرے ہوئے کل اور آنے والے کل کے بارے میں بات کرتے ہوئے اطمینان سے کہتے ہیں، ’’خبروں کا انداز بدل گیا ہے۔ پہلے ریڈیو پاکستان ایک ادارہ تھا ، اب ریڈیو کے ساتھ ٹیلی ویژن کے بھی ایک سو چینل ہیں۔ پھر اس کے ساتھ سوشل میڈیا بھی ہے۔ اس لئے خبریں اس انداز میں نہیں سنی جاتیں جیسے پچھلے وقتوں میں سنی جاتی تھیں ‘‘۔
اس کی وجہ شائد یہ ہو کہ اب ٹیلی ویژن پر حالات حاضرہ کے متعدد پروگرام ہوتے ہیں۔ گئے کل میں سات سے نو بجے رات کا وقت پرائم ٹائم کہلاتا تھا اور عام طور پر ڈرامے کی نشریات کے لئے مختص ہوتا تھا۔ لیکن اب ان اوقات میں حالات حاضرہ کے شوز ہوتے ہیں اور سو سے زائد چینل پر اسی نوعیت کے پروگرا م نشر ہوتے ہیں جن کی بنیاد خبروں پر ہوتی ہے ۔ لوگوں نے حالات حاضرہ کے شو ز کو اینٹرٹینمنٹ کیوں سمجھ لیا ہے؟ ۔۔اس بارے میں افتخار عارف نے کچھ کہنے سے گریز کیا۔
وہ پرانے وقتوں میں خبروں کی ادائیگی اور تلفط کا ذکر کرتے رہے۔ انہیں یاد آیا کہ ایک وقت میں ریڈیو پاکستان تلفظ کا معیار سمجھا جاتا تھا ، ریڈیو سے سنے جانے والے الفاظ درست سمجھے جاتے تھے, "مگر آج کل اس حد تک توجہ نہیں دی جاتی" ۔
ان کی زبان سے ادا ہونے والے اس شکایتی جملے میں بھی کچھ زیادہ شکایت نہیں تھی، جیسے یہ ایسے ہی ہونا لکھا تھا۔ جیسے وہ آج اور کل کے اس تقابلی جائزے میں ذرا بھی دلچسپی نہ رکھتے ہوں۔
باتوں باتوں میں ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل سلیم گیلانی مرحوم کا ذکر چل نکلا ، جنہوں نے بی بی سی کے انداز میں ہر گھنٹے کے آغاز پر خبروں کی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ اس بات نے مجھے میرے وہ تجربات یاد دلوائے، جو سلیم گیلانی کے دور سربراہی میں ریڈیو پاکستان میں کام کر کے میں نے پہلے لاہور اور پھر اسلام آباد میں حاصل کئے۔
میں نے پوچھا ، پاکستان ٹیلی ویژن کا پروگرام کسوٹی آج بھی لوگوں کی یادوں کا حصہ ہے ۔ کیا ہوا اس نوعیت کے معلوماتی پروگراموں کا ؟ محض انداز بدلا ہے یا پھر جاننے کی خواہش بدل گئی ہے؟۔ افتخار عارف کہنے لگے ، ایک وقت تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن سے کسوٹی کے ساتھ ساتھ ذہنی آزمائش کے اور پروگرام بھی ہوتے تھے ۔ انہوں نے زینہ بہ زینہ، میزان، سائینس میگزین اور نیلام گھر کا تذکرہ کیا اور کہا کہ اب ذہنی آزمائش کے پروگراموں کی جگہ حالات حاضرہ کے پروگرام اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔
تہذیب ، وضع داری ، اقدار کا پاس ، مادی خوشیوں کی طلب۔۔۔ افتخار عارف ان تمام معاشرتی قدروں کی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
""ایک زمانہ تھا جب لوگ فنون لطیفہ میں دلچسپی لیتے تھے, موسیقی اور کتاب سے شغف رکھتے تھے، لیکن اب چیزوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے ، کامیاب شخص وہ ہے جو مادی طور پرکامیاب ہے ، اقدار منہدم ہوتی جا رہی ہیں ""۔
انہوں نے ’’ایشین ڈرامہ‘‘نامی کتاب کے نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ گنار میرڈل Gunnar Myrdal کے بیان کا حوالہ دیا کہ ہم اپنے بچوں اور نئے آنے والوں کے لئے ایک مختلف دنیا چھوڑ رہے ہیں اور اگر میں کہوں تو ایک خراب معاشرہ چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں سوائے اکتساب زر کے اور دولت کے انبار کے ، سب چیزیں پسپا ہوتی جارہی ہیں ۔‘‘
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد افتخار عارف نے پھر کہنا شروع کیا ، " نظری طور پر تو ہر نئی آنے والی نسل گزشتہ نسل سے بہتر ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ اس کے سامنے علوم کے نئے ذرائع ہوتے ہیں اور علم و دانش کے نئے راستے ان کے سامنے کھلتے جاتے ہیں ۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا نے جیسے دنیا بھر کے دروازوں کو کشادہ کر دیا ہے ۔لیکن فلسفی کہتے ہیں کہ جس تیزی سے مادی ترقی ہوتی ہے اتنی تیزی سے اقدار میں بدلاؤ نہیں آتا"۔
مجھے لگا ، انہوں نے چند لمحوں کے توقف کے دوران ایک بار پھرخود کو اسی وضع داری کی چادر میں چھپا لیا ، جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔اب وہ برین ڈرین کا ذکر کر رہے تھے، اور اپنے ارد گرد برپا ہونے والی سیاسی اور سماجی تبدیلیوں سے ابھرتی بے یقینی کا بھی ۔۔
’’ شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئی مٹی کو نئے چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس
محور گردش سفاک سے خوف آتا ہے
یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے’’
یہ ہمارے پاڈ کاسٹ کے نئے سلسلے آج اور کل میں ہونے والی بات چیت کی کچھ جھلکیاں ہیں ۔ مکمل پاڈ کاسٹ سننے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔